31

پاراچنار: 125 رکنی پشتون امن جرگہ کرم پہنچ گیا، پولیس نفری بڑھانے کا فیصلہ

پشاور (ڈیلی اردو) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے 400 ایکس سروس مین اہلکار بھرتی کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق ضلع کرم میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس نفری بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) خیبر پختونخوا نے اس حوالے سے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو مراسلہ لکھا ہے۔

آئی جی کی جانب سے لکھے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ کرم کی اہم شاہرہ کو محفوظ اور پرامن بنایا جائے اور ٹل پاڑا چنارروڈ کی سیکیورٹی کے لیے 400 ایکس سروس مین اہلکار بھرتی کیے جائیں۔

مراسلے میں مزید کہا گیا کہ ایکس سروس مین میں 350 سپاہی اور 50 ہیڈ کانسٹیبل کی کئی پوسٹیں مرتب کی گئی ہیں، ایکس سروس مین کی بھرتی کا مقصد ٹل پاڑا چنار کی مین سپلائی لائن کو محفوظ بنانا ہے، بھرتی رواں اور اگلی مالی سال کے لیے کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

آئی جی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایکس سروس مین کی بھرتی کا عمل مکمل ہوتے ہی شاہراہ پر پولیس پوسٹیں قائم کی جائیں۔

دوسری جانب دوسری جانب ضلع کرم میں سڑک کی بندش سے ادویات کی قلت پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے اپنا ہیلی کاپٹر فراہم کردیا، آج کرم میں 63 لاکھ روپے مالیت کی جان بچانے والی اور دیگر ادویات پہنچائی گئی ہیں، وزیراعلیٰ کا پیلی کاپٹر ادویات کی دو کھیپ لے کر کرم پہنچا۔

ادھر کمشنرکوہاٹ نے ہنگو میں گرینڈ جرگہ ممبران اور کوہاٹ ڈویژن امن کمیٹی کے اراکین کے ساتھ ملاقات اور مشاورت کی، مشترکہ اجلاس میں ٹل کوہاٹ روڈ پر آئندہ کوئی بھی احتجاج نہ کرنے کا متفقہ فیصلہ کیاگیا، علاوہ ازیں کوہاٹ اور اورکزئی میں کسی قسم کے جلسے یا جلوس نہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیاہے، خلاف ورزی پر پولیس قانون شکنوں کے خلاف کارروائی کرے گی، فریقین کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔

کرم کے دونوں فریق اور گرینڈ جرگہ عنقریب کوہاٹ میں جنگ بندی پر معاہدہ کریں گے اور افہام و تفہیم سے مسئلے کا مستقل حل نکالیں گے، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او ہنگو نے آج کے جرگے کے انتظامات کیے تھے۔

اس موقع پر ہنگو اور اورکزئی کے ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز بھی کمشنر کوہاٹ کے ہمراہ تھے۔

دوسری جانب ضلع میں امن کے قیام کے لیے 125 رکنی پشتون امن جرگہ کُرم پہنچ گیا، جرگہ فریقین کے عمائدین سے ملاقات کرے گا۔

ڈیلی اردو کے مطابق 25 گاڑیوں پر مشتمل 125 رکنی جرگے میں مفتی کفایت اللہ، نصیر کوکی خیل، امان اللہ وزیر اور حمید شیرانی سمیت وزیرستان، مہمند، باجوڑ، خیبر، اورکزئی اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں کے علما اور قبائلی عمائدین شامل ہیں۔

جرگہ ممبران قبائلی عمائدین سے ملاقات کے لیے پہلے مرحلے میں صدہ پہنچے ہیں جس کے بعد وہ پاراچنار جائیں گے۔

یاد رہے کہ 21 نومبر کو اپر کرم سے پشاور اور پشاور سے اپر کرم اور صوبے کے دیگر علاقوں کو جانے والی شیعہ گاڑیوں کے قافلے پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا تھا جس میں ابتدائی طور پر تو 44 افراد ہلاک ہوئے لیکن پانچ افراد بعد میں ہسپتالوں میں دم توڑ گئے تھے۔

اس کے بعد اگلے روز اپر کرم کے علاقے علیزئی سے لوئر کرم کے علاقے بگن اور قریبی دیہات میں شیعہ مسلح لشکر نے حملہ کیا اور بازار میں دکانوں اور مکانات کو آگ لگا دی گئی۔ اس جھڑپ میں 32 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔

ضلع میں کئی دن تک جاری مسلح تصادم کے نتیجے میں 132 سے زائد ہلاکتوں کے بعد سیاسی جرگے کی مداخلت سے علاقے میں مکمل جنگ بندی کے بعد معمولات زندگی بحال ہوئے تھے اور علاقے میں اسکول بھی دوبارہ کھل گئے ہیں۔

ضلع کرم میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے حالات کشیدہ ہیں۔ ان پرتشدد حملوں کی وجہ تنازعہ زمین کا ٹکڑا ہوتا ہے جو بڑھ کر فرقہ وارانہ تشدد کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ کارروائیاں اور حملے کسی ایک گاؤں یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ پانچ سے چھ ایسے مقامات ہیں جہاں دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں سے حملے ہوتے ہیں۔

اپر کرم سے ملک کے دیگر اضلاع کے لیے راستہ لوئر کرم سے ہو کر گزرتا ہے اور 12 اکتوبر کے بعد سے راستوں کی بندش کی وجہ سے زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے جہاں روز مرہ استعمال کی اشیا کی قلت پیدا ہو گئی۔

اس علاقے میں لوگ مجبور ہیں کہ وہ علاج کے لیے شہر سے باہر نہیں جا سکتے، ان کی پاس تیل، ادویات اور دیگر اشیا ختم ہو رہی ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں