286

شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ کیوں مشکل ہے؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) شام میں باغی عسکریت پسندوں نے کئی سال بعد حکومتی افواج کے خلاف ایک بڑا حملہ کیا ہے جس سے یہ تاثر زائل ہوا کہ ان کی عسکری طاقت ختم ہو چکی تھی۔

ہیئت تحریر الشام کے غیر متوقع حملے کی مدد سے باغی قوتوں نے شام کے دوسرے بڑے شہر، حلب، پر قبضہ کرتے ہوئے سرکاری فوج کو بے دخل ہونے پر مجبور کر دیا۔

اس حملے کا ایک اور نتیجہ یہ نکلا کہ روس نے 2016 کے بعد شام میں پہلی بار فضائی کارروائیاں کیں جن میں حلب میں باغیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

شام کی خانہ جنگی کے آغاز کے 14 برس بعد ایک بار پھر سے چھڑ جانے والے جنگ نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ یہ تنازع آسانی سے ختم ہونے والا نہیں۔ 2018 سے شام خانہ جنگی کی وجہ سے تین حصوں میں بٹ چکا ہے۔

ایک جانب صدر بشار الاسد کی حکومت کے زیر کنٹرول علاقے ہیں تو دوسری جانب اسلام پسند باغی جب کہ تیسرا علاقہ کردوں کے زیر اثر ہے۔

لیکن وہ کیا وجوہات ہیں جن کے باعث شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ مشکل ہے؟

بیرونی طاقتیں اور مفادات

شام ایک عالمی شطرنج بن چکا ہے جہاں مخالف طاقتیں اپنے سٹریٹیجک مقاصد کے حصول میں مقامی اتحادیوں کی مدد کر رہی ہیں۔

ایک جانب بشار الاسد کی حکومت ہے جسے ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے تو دوسری طرف وہ مسلح حزب مخالف گروہ ہیں جن کی پشت پناہی ترکی، سعودی عرب اور امریکہ کر رہے ہیں۔

جیسے جیسے تنازع بڑھتا گیا، نام نہاد دولت اسلامیہ اور القاعدہ جیسے شدت پسند گروہ بھی میدان میں داخل ہوئے اور عالمی خدشات بھی بڑھتے چلے گئے۔

شام کے کرد شہری امریکی حمایت کی مدد سے اپنی حکومت قائم کرنے کے خواہش مند ہیں جس سے اس بحران کی پیچیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ روس اور ایران نے بشار الاسد کی حکومت کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جبکہ ترکی شمال میں اپنی سرحد سے ملحقہ علاقوں کے نزدیک مسلح گروہوں کی مدد کرتا آیا ہے۔

2020 میں روس اور ترکی نے ادلب میں جنگ بندی کا معاہدہ کروایا اور مشترکہ پیٹرولنگ کے لیے ایک سکیورٹی راہداری قائم کی۔ اگرچہ اس معاہدے کے بعد بڑے پیمانے پر جھڑپیں ختم ہو گئی تھیں لیکن شام کی حکومت مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر پائی۔

ایسے میں موجودہ صورت حال میں کمزور حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باغی پھر متحرک ہوئے ہیں کیوں کہ بشار الاسد کے اہم حامی، روس اور ایران، دیگر تنازعوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر سائمن فرینکل پریٹ میلبورن یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے سینیئر لیکچرر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بشار الاسد کی حکومت کئی سال سے بیرونی سہاروں پر بھاری انحصار کر رہی تھی اور لیکن اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں حزب اللہ کو پہنچنے والے نقصان اور یوکرین میں روس کی توجہ کی وجہ سے شام کی حکومت تنہا رہ گئی تھی اور یہی موقع تھا جب ہیئت تحریر الشام نے اچانک حملہ کیا اور علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا۔‘

کہا جا تا ہے کہ جنگ دوبارہ شروع ہونے کی وجہ شمال میں مقامی عدم استحکام ہے جو حل نہیں ہو سکا اور ساتھ ہی بیرونی امداد کی کمی ہے جس پر بشار الاسد کا انحصار تھا۔

معاشی اور انسانی بحران

کئی سال کی خانہ جنگی نے شام کو تباہ حال کر دیا ہے، معیشت کا برا حال ہے، اور لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ایسے میں بحالی کا راستہ بھی واضح نہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق جنگ سے قبل شام کی آبادی دو کروڑ 20 لاکھ تھی جس کا نصف بے گھر ہوچکا ہے۔ تقریبا 20 لاکھ لوگ اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 60 لاکھ ملک چھوڑ کر لبنان، اردن اور ترکی جا چکے ہیں۔ صرف ترکی میں50 لاکھ سے زیادہ شامی شہری بطور پناہ گزین موجود ہیں۔

امانوئیل اسچ ورلڈ وژن شام کے رسپونس ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’صورت حال غیر واضح ہے کیوں کہ بہت سے مقامات پر لڑائی جاری ہے اور متاثر ہونے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔‘

ان کے مطابق متاثرہ لوگ مختلف مقامات کا رخ کر رہے ہیں اور انھیں خدشہ ہے کہ ’یہ لوگ ان کیمپوں کا رخ کریں گے جہاں پہلے ہی 20 لاکھ افراد موجود ہیں۔ وہاں مزید لوگوں کی گنجائش نہیں ہے۔‘

موجودہ لڑائی سے قبل شام میں تقریبا ایک کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت تھی جوکہ ایک بڑی تعداد ہے۔

ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کو غذائی قلت کا سامنا تھا۔ فروری 2023 میں ترکی اور شام میں آنے والے زلزلے نے حالات مزید بگاڑ دیے۔ شام میں تقریبا چھ ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور 80 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے۔

آمرانہ طرز حکومت

بشار الاسد کی حکومت اقتدار برقرار رکھنے کے لیے تشدد اور جبر پر انحصار کرتی آئی ہے جس سے نہ صرف تنازع طول پکڑتا چلا گیا بلکہ ان کے خلاف عوام میں غصہ بھی بڑھتا گیا۔

2021 کی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال، گنجان آباد آبادیوں پر فضائی حملوں سمیت ایسی حکمت عملی کے شواہد موجود ہیں جن میں عام شہریوں کو خوراک سے محروم رکھنے کے مقصد سے باغیوں کے زیر اثر علاقوں کا گھیراؤ کیا گیا اور انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔

یورپین کونسل آن فارن ریلیشنز کے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ پروگرام کے ڈائریکٹر جولیئن بارنز کا کہنا ہے کہ ’آمرانہ طرز حکومت اس تنازع میں مرکزی کردار کا حامل ہے کیوں کہ بشار الاسد حکومت نے تسلسل سے سمجھوتہ کرنے یا شراکت اقتدار سے انکار کیا ہے۔‘

رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ فیلو برکو اوچیلک کا کہنا ہے کہ شامی حکومت اچھی گورنسس سے زیادہ اپنے دوام پر توجہ دیے ہوئے ہے۔

منقسم معاشرہ

بارنس ڈیسی کا کہنا ہے کہ شام میں جاری تنازع میں سیاسی اختلافات کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ تفریق بھی کارفرما ہے۔

جنگ کے ابتدائی دنوں سے ہے کرد اکثریتی علاقوں پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے جبکہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے بچ جانے والے جنگجو شام کے وسیع صحراؤں میں اب بھی موجود ہیں اور لوگوں کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔

ملک کے شمال مشرقی صوبے ادلب عسکری تنظیموں کا گڑھ بن بن چکا ہے جن کی قیادت ہیئت تحریر الشام کر رہی ہے جو اس صوبے پر بھی حکمرانی کر رہی ہے۔

ان شدت پسند تنظیموں کی آپسی لڑائی نے صورتحال کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔

ترک حمایتی گروپ سمیت کئی گروہوں کی ایس ڈی ایف سے جھرپیں ہوتی آئی ہیں۔ ایس ڈی ایف میں کردش گروپ وائے پی جی کے جنگجو شامل ہیں جنھیں ترکی شدت پسند تنظیم کہتا آیا ہے۔

حیات تحریر الشام کی حالیہ کارروائیوں کے شروع ہونے کے کچھ ہی روز بعد ترک حمایت یافتہ فری شامی آرمی نے دعویٰ کیا کہ اس نے حلب کے مضافاتی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

تاہم یہ علاقے بشارالاسد کی فوج کے کنٹرول میں نہیں تھے بلکہ یہاں ایس ڈی ایف قابض تھی جس سے ان تنظیموں کے درمیان موجود اختلافات واضح ہوتے ہیں۔

ناکام بین الاقوامی سفارتکاری

امن مذاکرات کی تمام کوششوں کی ایک بڑی وجہ اس تنازع میں شامل فریقین کے متضاد ایجنڈے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر بڑے فریقین اپنے سٹریٹیجک اہداف پر کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوتے جس کے نتیجے میں کسی پائیدار حل تک پہنچنے کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے۔

بارنس ڈیسی کہتے ہیں کہ بشارالاسد نہ حکومت چھوڑنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کے لیے تیار ہیں جب کہ باغی گروپس اسد کی حکومت گرا کر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔

فرینکل پریٹ کہتے ہیں کہ ’خطے کے دیگر ممالک شام کی صورتحال کو لے کر کافی پریشان ہیں کیونکہ انھیں بھی نہیں پتا کہ یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ایسے ممالک پھر قدامت پسندی سے کام لیتے ہیں۔

’مثال کے طور پر ہمیں شاید دیکھنے کو ملے کہ ایران اور خلیجی ممالک کے درمیان صورتحال کو وقتی طور پر مستحکم رکھنے کے لیے حامی بھر لیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح امریکہ اور یورپ کی جانب سے قدامت پسند خارجہ پالیسیاں اپنائی جائیں جن کا مقصد محض تنازع کو مزید پھیلنے روکنا ہو۔

کچھ ماہرین ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران امریکہ کی بدلتی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونی والی غیر یقینی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

مثال کی طور پر اطلاعات کے مطابق ترکی باغیوں کی جانب سے ٹرمپ کی صدارت سنبھالنے سے پہلے کی جانے والی پیش قدمی کے حق میں ہے تاکہ امریکہ اور روس سے ہونے والے مذاکرات میں برتری حاصل کی جا سکے۔

تاہم برنس ڈیسی کہتے ہیں کہ فی الحال یہ واضح نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق پالیسی کیا ہوگی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ کی انتظامیہ بھی دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک گروہ مشرق وسطی میں اسرائیل نواز، ایران مخالف جارحانہ پالیسی کا حامی ہے جبکہ دوسرے گروہ کی خواہش ہے کہ امریکہ کسی تنازع کا حصہ نہ بنے۔

بارنس ڈیسی کے مطابق ’ابھی یہ کہنا ہے ناممکن ہے کہ آیا ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ میں مزید مداخلت کی پالیسی اپناتے ہوئے ایران کو نشانہ بنائیں گے یا خطے سے امریکی انخلاء کو تیز کرتے ہوئے علاقائی قوتوں کو اپنے تنازعات آزادانہ طور پر حل کرنے کے لیے چھوڑ دیں گے۔‘

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں