198

امریکہ کے فوجی شام میں موجود رہیں گے، پینٹاگان

واشنگٹن (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) امریکہ نے کہا ہے کہ داعش کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکنے کے لیے اس کے اہلکار شام میں موجود رہیں گے۔

دمشق میں بشار الاسد کی حکومت ختم ہونے کے بعد اپنے بیان میں محکمۂ دفاع پینٹاگان کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری برائے مشرقِ وسطیٰ ڈینیئل شپیرو نے کہا ہے کہ امریکہ شام میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گا جس کا مقصد داعش کو دوبارہ طاقت ور ہونے سے روکنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ داعش کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

بحرین میں جاری سیکیورٹی کانفرنس ماناما ڈائیلاگ سے خطاب میں شپیرو نے تمام فریقوں پر شہریوں اور بالخصوص اقلیتوں کے تحفظ اور بین الاقوامی اقدار کا احترام کرنے کے لیے زور دیا ہے۔

شام میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں: امریکہ

صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا ہے کہ بائیڈن حکومت شام میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے۔

اس سے قبل وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکہ شام میں بدلتی ہوئی صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کو سوشل میڈیا پر پوسٹ میں کہا تھا کہ امریکہ کو شام میں فوجی مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔

شام کے مستقبل کے فیصلوں میں بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہیے: ایران

ایران کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام کے مستقبل کے فیصلوں کے ذمے دار اس کے عوام ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران شام کے اتحاد، قومی اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔ شام کے مسقبل کی فیصلہ سازی اس کے عوام کی ذمے داری ہے جس میں بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران شام کی سلامتی اور استحکام کے لیے ہر ممکن کوششیں جاری رکھے گا اور خطے سمیت اس معاملے میں اثر و رسوخر رکھنے والے ہر فریق سے مشاورت کرے گا۔

شام میں جلد از جلد استحکام آئے گا: چین

چین کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ شام میں جلد از جلد استحکام کی واپسی کی امید ہے۔

شام میں مخالف جنگجو گروپس کے دمشق میں داخلے کے بعد بشار الاسد حکومت ختم ہونے پر اپنے بیان میں چینی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ چین صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

وزارتِ خارجہ کے مطابق شام میں موجود چینی شہریوں کے انخلا کے لیے معاونت فراہم کی جارہی ہے۔

شامی حکومت میں سب کو نمائندگی ملنی چاہیے: ترکیہ

ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حقان فیدان نے کہا ہے کہ شام میں قائم ہونے والی حکومت میں تمام فریقوں کی نمائندگی ہونی چاہیے۔

دوحہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب شام کے لوگ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ شام اپنی تعمیر نو اور بحالی اپنے بل پر نہیں کرسکتا اس لیے علاقائی اور عالمی فریقین کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ دہشت گردوں کو شام کی صورتِ حال کا فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔

اس سوال پر کہ بشار الاسد کہاں ہیں؟ ترک وزیرِ خارجہ نے کہا کہ وہ اس پر تبصرہ نہیں کرسکتے تاہم انہوں ںے خیال ظاہر کیا کہ سابق شامی حکمران اپنا ملک چھوڑ چکے ہیں۔

دمشق ایئرپورٹ کھلتے ہی زائرین کو واپس لانے کے لیے اقدامات کریں گے: پاکستان

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ شام کی وحدت، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے حامی رہے ہیں اور اس متعلق اصولی مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ شام میں بدلتی صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔

وزارتِ خارجہ کے مطابق شام میں موجود پاکستانی محفوظ ہیں اور انہیں نقل و حرکت میں احتیاط برتنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ دمشق ایئرپورٹ بند ہوچکا ہے۔ پاکستانی سفارت خانہ شام میں پھنسے زائرین سے رابطے میں ہے اور ایئرپورٹ فعال ہوتے ہی انہیں وطن واپس لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

ایک نئے دور کا آغاز

شام میں باغی فورسز ملک کے دارالحکومت دمشق میں داخل ہو گئی ہیں اور یہ اطلاعات بھی ہیں صدر بشارالاسد طیارے میں سوار ہو کر کسی اور ملک منتقل ہو چکے ہیں۔ باغی فورسز نے دمشق پر قبضے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک تاریک دور کا خاتمہ ہوا اور یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔

باغیوں کے دارالحکومت میں داخل ہونے پر بشارالاسد کی افواج نے یا تو اپنی پوسٹیں چھوڑ دیں یا پھر وہ ان باغیوں کے ساتھ ہی مل گئیں۔

ٹی وی پر کیے جانے والے ایک اعلان میں گروپ نے کہا کہ ’بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا گیا ہے اور شہر کو آزاد کرا لیا گیا ہے۔‘ اس گروپ نے کہا ہے کہ ’تمام شامیوں اور تمام مکاتب فکر کا آزاد اور خودمختار شام زندہ باد۔‘

اب سے کچھ دیر قبل باغی گروہ ہیئت تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی کا کہنا ہے کہ اقتدار کی باضابطہ منتقلی تک عوامی ادارے وزیرِ اعظم محمد الجلالی کے ماتحت کام کرتے رہیں گے۔

باغیوں کی جانب سے صدر بشارالاسد کی شام سے فرار ہونے کے دعوے کے بعد وزیرِ اعظم محمد الجلالی نے اعلان کیا ہے کہ عوام جس کو بھی چنیں گے وہ اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔

شام کے دو سینیئر فوجی حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ صدر بشار الاسد طیارے میں سوار ہو کر دمشق سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔

ابو محمد الجولانی کی قیادت میں نومبر کے آخر میں حلب پر اچانک قبضے کے ساتھ شروع ہونی والی کارروائیوں کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے دو ہفتوں سے بھی کم عرصے میں حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے۔

دمشق شہر پر تازہ حملے ہیئت تحریر الشام کی قیادت میں ہوئے ہیں۔ اس سے قبل یہ گروپ ملک کے دوسرے بڑے شہر حلب اور تیسرے بڑے شہر حمص کے اکثریتی علاقے پر بھی قبضہ کر چکا ہے۔

سنہ 2016 میں صدر بشارالاسد کی افواج نے حلب سے باغیوں کو علاقہ بدر کر دیا تھا اور اس کے بعد سے یہاں پر کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا تھا۔

سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کےمطابق گذشتہ ہفتے شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک 111 عام شہریوں سمیت 820 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

باغی کمانڈر حسن عبدالغنی کا کہنا ہے کہ شام کی بدنامِ زمانہ صیدنایا جیل سے تقریباً ساڑھے تین ہزار قیدیوں کو رہا کروایا جا چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق باغیوں کی کارروائی کے نتیجے میں اب تک کم از کم تین لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔

یاد رہے سنہ 2011 میں اس ملک میں جمہوریت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس وقت صدر بشارالاسد کے مخالفین بشمول جہادی گروہ نے اس خانہ جنگی کا فائدہ اُٹھایا تھا اور ملک کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

تاہم بعد میں شامی حکومت نے روس، ایران اور دیگر اتحادیوں کی مدد سے تقریباً تمام علاقوں کا کنٹرول واپس لے لیا تھا۔

صرف ادلب وہ واحد علاقہ تھا جس کا کنٹرول ہیئت تحریر الشام کے پاس تھا۔ اس صوبے میں کچھ علاقوں میں ترکی کے حمایت یافتہ جنگجو بھی موجود ہیں۔

دمشق پر حملہ کرنے والے باغی کون ہیں؟

دمشق پر تازہ حملے کرنے والے گروپ ہیئت تحریر الشام کا شامی تنازع میں ایک عرصے سے کردار رہا ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ، ترکی اور دیگر کئی ممالک نے ایچ ٹی ایس کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔

ہیئت تحریر الشام کا وجود سنہ 2011 میں جبهة النصرہ کے نام سے سامنے آیا تھا، جو کہ القاعدہ سے منسلک ایک گروہ تھا۔

نام نہاد دولت اسلامیہ کے سابق سربراہ ابو بکر البغدادی کا بھی اس گروہ کو بنانے میں کردار تھا۔

اس گروہ کو شام میں صدر بشارالاسد کا سب سے خطرناک ترین مخالف سمجھا جاتا تھا۔

سنہ 2016 میں جبهة النصرہ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے قطع تعلق کر لیا اور اس تنظیم کو تحلیل کرکے دیگر گروہوں سے اتحاد کر کے ہیئت تحریر الشام کی بنیاد رکھ دی۔

القاعدہ سے تعلق توڑنے کے بعد ہیئت تحریر الشام کا مقصد دنیا میں خلافت قائم کرنا نہیں بلکہ شام میں بنیاد پرست مذہبی حکومت قائم کرنا ہے۔

’ایران کو دھچکا‘

گذشتہ چار برسوں میں ایسا لگ رہا تھا جیسے شام میں جنگ اب ختم ہو گئی ہے اور صدر بشار الاسد کی حکومت ملک کے بڑے حصوں پر کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

بشار الاسد کی اس فتح کے پیچھے روسی فضائیہ اور اہم اتحادی ایران کی عسکری قوت کا بھی ہاتھ تھا۔

دوسری جانب ایران یہ ماننے کو تیار نہیں کہ حلب کا کنٹرول شامی حکومت کے ہاتھ سے چلا گیا ہے۔

ایرانی نیوز ایجنسی اِرنا کے مطابق لبنان میں ایرانی سفیر مجتبیٰ امانی کا کہنا ہے کہ حلب پر ’دہشتگردوں کے قبضے‘ کی غلط افواہیں ’سائبر آرمی‘ کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہیں۔

مجتبیٰ امانی کا کہنا تھا کہ ’اب شامی حکومت مضبوط ہے اور روسی حکومت بھی شام کا دفاع کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ مزاحمتی محاذ اور ایران شامی حکومت اور اس کے عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔‘

لیکن دوسری جانب عرب میڈیا حلب میں باغی جنگجوؤں کی پیش قدمی کو ’ایران کے لیے ایک دھچکا‘ قرار دے رہا ہے۔

ممتاز سعودی لکھاری مشاری التھیدی نے عرب اخبار الشرق الاوسط کو بتایا کہ شام میں باغیوں کی پیش قدمی روس اور شامی حکومت کے ساتھ ساتھ ایران کے لیے بھی ایک ’دھچکا‘ ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ حلب اور دیگر علاقوں میں جاری تازہ لڑائیاں شام میں ایران اور دیگر غیرملکی طاقتوں کی مداخلت کا نتیجہ ہیں۔

ایک اور عرب اخبار العرب نے شام کے حوالے سے ایک مضمون کی سرخی کچھ اس انداز میں دی: ’پانچ برسوں کے امن کے بعد حلب بشار الاسد کے لیے ایک پیچیدہ امتحان ثابت ہوگا۔‘

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں