131

شام: دمشق کی مسجدِ اموی میں تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کا کارکنوں سے خطاب

دمشق (ڈیلی اردو/اے ایف پی/بی بی سی) سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر میں عسکریت پسند تنظیم ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کو دمشق کی مسجدِ اموی میں اب سے کچھ دیر قبل کارکنوں سے خطاب کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جب الجولانی مسجد میں داخل ہوا تو عمارت اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی۔

ہم اس سے پہلے یہ رپورٹ کر چکے ہیں کہ دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے پہلے بیان میں جولانی نے کہا تھا کہ ’اب واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اب مستقبل ہمارا ہے۔‘

ابو محمد الجولانی کون ہیں؟

دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد عسکریت پسند تنظیم ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کی جانب سے جاری ہونے والے پہلے بیان میں کہا گیا ہے کہ اب واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اب ’مستقبل ہمارا ہے۔‘

جب نومبر کے اختتام پر شام کے شہر حلب پر حکومت مخالف باغیوں قبضہ ہوا تو اس حملے کی قیادت کرنے والے ایک باریش شخص کی تصاویر منظر عام پر آئیں جس نے عسکری لباس زیب تن کر رکھا تھا۔

اس شخص کا نام ابو محمد الجولانی ہے، جو ہیئت تحریر الشام نامی گروہ کے سربراہ ہیں۔

وہ جس گروہ کی وہ سربراہی کر رہے ہیں اس پر مغربی ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ اور چند مسلم ممالک نے بھی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اسے ’دہشت گرد گروہ‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔

ابو جولانی شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف متحرک تحریک کے مرکزی رہنما ہیں اور اب دمشق کا کنٹرول بھی سنبھال چکے ہیں۔ یہاں تقریباً 30 لاکھ ایسے لوگ آباد ہیں جو شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے بے گھر ہوئے اور اسے حکومت مخالف تحریک کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

تاہم 11 روز قبل شروع ہونے والا اچانک حملہ ابو جولانی کی زندگی کا شاید اب تک کا سب سے ڈرامائی باب ہے جو شام کی خانہ جنگی کے سب سے پراسرار اور متنازع رہنما ہیں۔

ابوجولانی کے حوالے سے پراسراریت

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق ابوجولانی کا اصل نام، ان کی تاریخ پیدائش، جائے پیدائش اور شہریت کے بارے میں مختلف معلومات موجود ہیں جس کی وجہ سے ان کی شخصیت کے حوالے سے پراسراریت میں اضافہ ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ابوجولانی 1975 اور 1979 کے درمیان پیدا ہوئے جبکہ انٹرپول کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش 1975 ہے۔

امریکی ٹی وی نیٹ ورک پی بی ایس کو دیے جانے والے ایک انٹرویو کے مطابق ان کا اصلی نام احمد حسین ہے اور ان کو ابوجولانی گولان کی پہاڑیوں کی وجہ سے کہا جاتا ہے جہاں سے ان کے خاندان کا تاریخی تعلق ہے۔

اسی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ 1982 میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد پیٹرولیئم انجینیئر کے طور پر کام کرتے تھے۔ 1989 میں ان کے اہلخانہ شام واپس لوٹے اور اس کے بعد ان کی پرورش دمشق کے قریب ہوئی۔

چند خبروں کے مطابق انھوں نے دمشق میں طب کی تعلیم حاصل کی لیکن تیسرے سال کے دوران عراق میں القاعدہ میں اس وقت شمولیت اختیار کر لی جب امریکہ نے 2003 میں حملہ کیا۔

کہا جاتا ہے کہ وہ جلد ہی عراق میں القاعدہ کے سرگرم رہنما ابو مصعب الزرقاوی کے قریبی ساتھی بن گئے لیکن 2006 میں الزرقاوی کی ہلاکت کے بعد لبنان منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے جند الشام نامی لبنانی عسکری گروہ کو تربیت فراہم کی۔

اس کے بعد ان کی عراق واپسی کی اطلاعات موجود ہیں جہاں امریکی فوج نے انھیں گرفتار کیا اور کچھ عرصہ تک قید میں رہنے کے بعد جب 2008 میں ان کو رہائی ملی تو وہ نام نہاد دولت اسلامیہ میں شامل ہو گئے۔

کہا جاتا ہے کہ انھیں امریکی کیمپ بکا نامی قید خانے میں رکھا گیا تھا جہاں ان کے نظریات پختہ ہوئے اور مستقبل میں بننے والی نام نہاد دولت اسلامیہ کے رہنماوں سے تعلقات بھی استوار ہوئے۔

چند رپورٹس کے مطابق الجولانی اگست 2011 میں شام واپس لوٹے اور انھوں نے القاعدہ کی ایک شاخ کھولی جس کا مقصد صدر بشار الاسد کے خلاف جنگ تھا۔ تاہم ایک لبنانی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ الجولانی حقیقت میں عراقی شہری ہیں اور ان کے نام کی وجہ فلوجہ کا وہ علاقہ ہے جسے الجولان کہتے ہیں اور ان کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔

جبھہ النصرہ نامی اس شدت پسند گروہ کی قیادت سنبھالنے کے بعد اطلاعات کے مطابق الجولانی کی ذاتی معلومات کو اتنا خفیہ رکھا گیا کہ گروہ کے اکثر اراکین تک اپنے سربراہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔

القاعدہ سے علیحدگی

2011 میں شام میں بغاوت خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی تو الجولانی ابوبکر البغدادی کی جانب سے خصوصی مشن پر شام پہنچے تاکہ دولت اسلامیہ کی ایک مقامی شاخ کی بنیاد رکھ سکیں۔ 2012 میں ’جبھہ النصرہ‘ کا آغاز ہوا اور یہ دولت اسلامیہ کی عراقی شاخ بن گئی۔

تاہم 2013 میں جب ابوبکر البغدادی نے باقاعدہ طور پر جبھہ النصرہ اور دولت اسلامیہ کے انضمام کا اعلان کیا تو الجولانی نے اسے رد کرتے ہوئے الاقاعدہ کے سربراہ ایمن الزواہری کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

یہ وہ وقت تھا کہ جب جبھہ النصرہ عسکری اعتبار سے طاقتور ہوتی جا رہی تھی۔ جولائی 2016 میں الجولانی نے اعلان کیا کہ ان کے گروہ کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں رہا اور اسے اب جبھہ فتح الشام کے نام سے پکارا جائے۔

2017 میں اس گروہ کو ’ہیئت تحریر الشام‘ کے نام سے ایک اتحاد کی شکل دی گئی جس میں دیگر تنظیمیں بھی شامل تھیں اور اس کے سربراہ الجولانی تھے۔

اس تنظیم نے مقامی سطح کے مسائل کو ترجیح دی اور 2021 میں الجولانی نے امریکی ادارے پی بی ایس کو انٹرویو میں کہا کہ انھوں نے القاعدہ کے عالمی جہاد کے نظریے کو ترک کر دیا ہے اور اب ان کا مقصد شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ اور ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا ہے۔

اس انٹرویو میں الجولانی نے کہا کہ ’جب ہم القاعدہ میں تھے، تب بھی یورپی یا امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کے خلاف تھے۔ ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ہیئت تحریر الشام کو دہشت گرد گروہ کا درجہ دینا ’غیر منصفانہ‘ اور ’سیاسی‘ فیصلہ تھا۔

حلب

الجولانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں۔ پہلے ان کے نظریات القاعدہ سے قریب تھے لیکن بعد میں انھوں نے مقامی ایجنڈا کو اپنا لیا۔

ان کی قیادت میں ہیئت تحریر الشام نے حلب صوبے میں اسلامی نظام نافذ کیا، عدالتیں بنائیں اور پولیس فورس تک قائم کی۔ حلب میں ان کا کافی اثرورسوخ ہے جو شام میں اپوزیشن کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ علاقہ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ یہ ترکی کی سرحد سے ملتا ہے۔

اس دوران الجولانی نے عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ مقامی انتظامیہ چلانے اور سفارت کاری میں مہارت بھی دکھائی اور شام کے تنازع میں ایک اہم کردار بن کر ابھرے۔

وہ علاقے جو ان کے گروہ کے زیر انتظام ہیں، وہاں ایک ایسی حکومت موجود ہے جو معیشت، صحت، تعلیم اور سکیورٹی تک کا انتظام کرتی ہے۔ الجولانی نے یہ کہا ہے کہ ان علاقوں میں ’اسلامی حکومت ہے لیکن دولت اسلامیہ کے نظریات کے تحت نہیں۔‘

تاہم خبروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق ان کے گروہ نے اپنے مخالفین کے خلاف سخت رویہ اپنایا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ ان کے گروہ نے قیدیوں پر تشدد کیا ہے۔

الجولانی ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو دعوت دیتے رہے ہیں کہ وہ ان کے زیر انتظام علاقے میں موجود جیلوں کا دورہ کریں اور وہاں پر حالات کا جائزہ لیں۔

واضح رہے کہ امریکی حکومت بھی الجولانی کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے معلومات فراہم کرنے پر 10 ملین ڈالر کی انعامی رقم رکھی گئی ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں