175

شام میں خواتین کے لباس اور آزادی پر کوئی قدغن نہیں ہوگی، باغی گروپس کا کمانڈر جنرل

دمشق (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹںے والے باغیوں نے کہا ہے کہ وہ خواتین کیلئے مذہبی بنیادوں پر کوئی خاص لباس لازم نہیں کریں گے اور ہر کسی کی شخصی آزادیوں کا احترام کریں گے۔

پیر کو بشار الاسد کے خلاف مسلح کارروائی کرنے والے گروپس کی جنرل کمانڈ کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے لباس سے متعلق کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے کے لباس اور وضع قطح سے متعلق کوئی ضابطہ بنانے کی درخواست مکمل طور پر ممنوع ہوگی اور اس بارے میں سادگی اختیار کرنے کی جیسی درخواستوں کی بھی گنجائش نہیں ہوگی۔

کمانڈ نے کہا ہے کہ ہر کسی کی شخصی آزادیوں کی ضمانت دی جائے گی اور ایک مہذب قوم کی تشکیل کے لیے انفرادی حقوق کا احترام کیا جائے گا۔

سال 2011 میں شروع ہونے والے خانہ جنگی کے بعد جو علاقے اپوزیشن گروپس کے کنٹرول میں آئے تھے وہاں خواتین کی اکثریت پر لباس سے متعلق کوئی پابندیاں نہیں لگائی گئی تھیں۔ وہاں عام طور پر خواتین سادہ لباس پہنتی ہیں جس میں صرف ان کا چہرہ ظاہر ہوتا ہے۔

شام میں دمشق پر کنٹرول حاصل کرنے والے جنگجوؤں کی قیادت ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کر رہی ہے جس کے سربراہ ابو محمد الجولانی ہیں۔

جولانی ماضی میں القاعدہ میں شامل رہے ہیں تاہم ایچ ٹی ایس کو منظم کرنے اور حالیہ پیش قدمی شروع کرنے سے پہلے انہوں نے ایک عملیت پسند رہنما کے طور پر اپنی شناخت بنائی ہے۔

جولانی القاعدہ سے راہیں جدا کرنے کے بعد مسلسل خود کو اختلاف رائے برداشت کرنے والے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والے رہنما کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں۔

اسد حکومت کے خلاف حتمی پیش قدمی سے قبل بھی انہوں نے شام کی اقلیتی کمیونٹیز کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی اور ان پر زور دیا تھا کہ وہ اسد حکومت کی حمایت سے دست بردار ہوجائیں۔

امریکہ ’واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی‘ کے سینیئر فیلو اور ایچ ٹی ایس پر 2022 میں شائع ہونے والی کتاب کے مصنف ایرون زیلین کا کہنا ہے کہ جولانی ایک قدرے عملیت پسند رہنما ہیں اور اس گروپ کے موجودہ اہداف عالمی نہیں بلکہ مقامی نوعیت کے ہیں۔

ان کے مطابق یہ گروپس اپنے فیصلوں میں سیاسی اہداف کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن وہ اس کے باوجود جہاد کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں اور اس طرزِ عمل کی جھلک حالیہ لڑائی میں بھی نظر آتی ہے۔

زیلین کے خیال میں ایچ ٹی ایس عالمی جہاد اور دنیا میں شرعی نظام کے نفاذ جیسے اہداف سے ہٹ کر مقامی تنظیم کی طرح سوچتی ہے۔

تاہم شام میں تبدیلی لانے والے مختلف گروپس کے ماضی میں سخت گیر مذہبی جماعتوں سے تعلق رہا ہے۔ اس لیے انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے متعلق آئندہ حکومت کے طرزِ عمل کے بارے میں عالمی سطح پر ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی دکھائی دیتی ہے اور مسلسل ان آزادیوں کا تحفظ یقینی بنانے کی اپیل کی جارہی ہے۔

البتہ افغانستان میں طالبان حکومت نے شامی عوام کے نام پیغام میں یہ امید ظاہر کی ہے کہ شام میں ایک اسلامی حکومت کا قیام ہوگا۔

اس کے علاوہ بشار الاسد کی حکومت ختم کرنے میں باغیوں کی کامیابی پر طالبان حکومت نے اتوار کو صوبہ خوست میں جشن کی تقریب بھی منقعد کی ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں