127

کرم: شاہراہیں آمدورفت کےلئے بند، فائر بندی معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کی شکایات

پشاور(وی او اے / ڈیلی اردو)افغانستان کے ساتھ پاکستان کے قبائلی ضلعے کرم میں فریقین کے درمیان عارضی جنگ بندی کے باوجود شاہراہیں بدستور آمد و رفت کے لیے بند ہیں جس سے اشیائے خوردنی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی قلت پیدا ہو گئی جب کہ شہریوں کے معمولات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

کرم کے مرکزی انتظامی شہر پاڑہ چنار کے سبزی فروش حسنین عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اکتوبر سے پاڑہ چنار کو کوہاٹ اور پشاور سے ملانے والی شاہراہ کی بندش سے پھل اور سبزیوں کی ترسیل مکمل طور پر بند ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی طور پر پیدا ہونے والی سبزیوں سے دکان داری کرنا مشکل ہے۔ پاڑہ چنار سمیت پورے ضلعے میں بے روزگاری اور اشیائے خوردنی کی قلت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

ضلع کرم کے ایک اور رہائشی میر افضل کا کہنا تھا کہ شدید سردی میں گیس اور جلانے کے لیے لکڑی کا نہ ہونا مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اکتوبر سے اب تک گیس سلینڈرز کی ترسیل بند ہے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے علاقے کے تمام پیٹرول پمپوں کو بند کر دیا گیا ہے۔

ملک عمران خان مقبل کا تعلق اپر کرم میں غوز گڑھی سے ہے اور وہ لوئر کرم میں پیر قیوم نامی علاقے میں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سڑکوں کی بندش سے ضلعے بھر کے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ سڑکیں کسی نے بھی بند نہیں کیں، صرف خوف کی وجہ لوگ ان پر سفر سے قاصر ہیں۔ حکومت راستوں کو محفوظ بنا کر کھول دے تاکہ لوگ بغیر کسی خوف کے سفر کر سکیں۔

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ کرم کی مرکزی شاہراہ بہت جلد آمد و رفت کے لیے بحال کر دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی شاہراہ پر قائم بنکرز کو عوامی تعاون سے جلد ختم کیا جائے گا۔

تاہم انہوں نے اس شاہراہ کھولنے کے بارے میں کوئی حتمی تاریخ نہیں بتائی۔

کوہاٹ کے کمشنر کے دفتر میں کئی دن سے مصالحتی جرگے کے ارکان مسئلے کے مستقل حل کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ مگر جرگہ ارکان کے مطابق ابھی تک نتائج دکھائی نہیں دے رہے۔

ایک قبائلی رہنما ملک عطاء اللہ خان نے کہا کہ یہ سرکاری طور پر تشکیل اور طلب کیے گئے جرگے نشستن، گفتن، خوردن اور برخواستن کے سواء کچھ نہیں ہیں۔

کرم سے تعلق رکھنے والے عدنان حیدر اور ملک عطاء اللہ نے وائس آف امریکہ سے علیحدہ علیحدہ گفتگو میں کہا کہ جھڑپوں کے باعث راستے دو ماہ سے بند ہیں۔ ان راستوں کی بندش سے خوراک کی اشیا اور تیل کی کمی ہے جب کہ مریض علاج محروم ہونے کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گیس ختم ہونے کے سبب تندور اور ہوٹل بند ہو چکے ہیں۔

کرم سے قومی اسمبلی کے رکن انجینئر حمید حسین نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عوام خوراک و علاج نہ ملنے کے باعث اذیت ناک صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پائیدار امن کے قیام کا واحد حل مین شاہراہ کھول کر محفوظ بنانا ہے۔ اس شاہراہ کو محفوظ بنانے سے ہی علاقے میں قیامِ امن ممکن ہے۔

ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کمشنر ہاؤس کوہاٹ میں مصالحتی جرگہ جاری ہے۔

ان کے بقول صوبائی حکومت کی ہدایات پر حالات معمول پر لانے اور متاثرین کی امداد کے لیے اقدامات ہو رہے ہیں۔

جرگے کے ایک رکن حاجی عزت اللہ نے بھی کہا کہ جرگہ جاری مثبت سمت کی جانب گامزن ہے۔

کرم کے قبائلی رہنما ملک عطاء اللہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مصالحت کے لیے جاری کوششوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت اور ادارے جرگے کی کارروائی پر نہ صرف اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ جرگہ میں کیے گئے فیصلوں پر عمل در آمد نہیں کرتے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ نوے کے دہائی سے لے کر ہر فرقہ وارانہ کشیدگی اور تصادم کے بعد جرگے سرکاری طور پر تشکیل دیے جاتے ہیں۔ مگر ان جرگوں کے فیصلوں پر عمل در آمد نہیں کیا جاتا۔

جرگے کے رکن ملک عزت اللہ نے کہا کہ کمشنر ہاؤس کوہاٹ میں آج بھی مذاکراتی عمل جاری ہے اور ان مذاکرات میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کے با اختیار مشران شرکت کر رہے ہیں۔

ان کے بقول اس جرگے کو سول اور فوجی حکام کی مکمل حمایت حاصل ہے اور بہت جلد جرگہ فیصلہ کرکے حکام کو اس پر عمل در آمد کے لیے مطلع کریں گے۔

صوبے کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے تشکیل کردہ سرکاری جرگے کے علاوہ کالعدم پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے 120 اراکین پر مشتمل جرگے نے دو روز قبل کرم کا تفصیلی دورہ کیا ہے۔

کرم کے قبائلی رہنما ملک عطاء اللہ خان نے بتایا کہ ملک نصیر احمد کوکی خیل کےی سربراہی میں اس جرگے نے کرم کے طول و عرض میں شیعہ اور سنی قبائل کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کرکے انہیں پر امن رہنے کی تلقین کی ہے۔ یہ جرگہ ایک مہینے کے بعد دوبارہ کرم کا دورہ کرکے فریقین کے درمیان مستقل بنیادوں پر تم تنازعات کو پر امن طور پر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ صوبے کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے بھی رواں ماہ کے اوائل میں کمشنر ہاؤس کوہاٹ میں جرگے کا انعقاد کیا تھا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل تھے۔

کرم کے سابق سرکاری افسر جاوید اقبال خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کرم واحد قبائلی ضلع ھے جہاں پر قیامِ پاکستان سے قبل برطانوی راج میں اشتمالِ اراضی ہوا تھا۔ انگریز دور کے ان فیصلوں پر عمل درآمد ستر کے دہائی کے آخر تک ہو رہا تھا۔

ان کے بقول بدقسمتی سے اسی کی دہائی کے وسط میں اراضی پر مختلف علاقوں میں تنازعات شروع ہو گئے تھے۔ با اثر خاندانوں اور افراد نے شاملات یا ایک دوسرے کے جائیدادوں اور املاک پر قبضے کیے۔

سرکاری افسر نے کہا کہ اہلِ تشیع کے زیرِ اثر علاقوں میں اہلِ سنت اور اہل سنت کے علاقوں میں اہلِ تشیع کو ان کی جائیدادوں اور دیگر املاک سے محروم کیا گیا ہے۔

ایک روز قبل وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کوہاٹ میں کرم کے حالات سے نمٹنے کے لیے تشکیل کردہ سرکاری جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نفرتوں کو مٹانے سے تصادم خود بخود ختم ہو جائے گی۔

ان کے بقول قیامِ امن کے لیے ضلع کرم کو بھاری ہتھیاروں سے پاک کرنا ناگزیر ہے۔

شاہراہ کی بندش پر انہوں بتایا کہ صوبائی حکومت ہیلی کاپٹر سروس کے ذریعے ادویات کی فراہمی جاری رکھے گی۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں