یروشلم (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے) اسرائیل کے چار سکیورٹی ذرائع نے مبینہ ایرانی جاسوسوں کی گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے۔ ان مبینہ سیلز کے نامکمل اہداف میں ایک اسرائیلی ایٹمی سائنسدان اور سابق فوجی عہدیداروں کو قتل کرنا بھی شامل تھا۔ اسرائیل کی سکیورٹی سروس شن بیت نے کہا ہے کہ ان میں سے ایک گروپ نے اسرائیل کے فوجی اڈوں اور فضائی دفاع کے بارے میں معلومات جمع کیں۔
گزشتہ ہفتے اس ایجنسی اور اسرائیلی پولیس نے کہا تھا کہ ایک باپ اور بیٹے کی ٹیم نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی فورسز کی نقل و حرکت کی تفصیلات سے ایران کو آگاہ کیا تھا، جہاں وہ رہتے تھے۔
اسرائیل کے چار حاضر سروس اور سابق فوجی و سکیورٹی حکام کے مطابق یہ گرفتاریاں گزشتہ دو برسوں کے دوران ایرانی انٹیلی جنس اہلکاروں کی جانب سے کی گئی بار بار کوششوں کے بعد ہوئی ہیں۔
ان اسرائیلی حکام کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ایران عام اسرائیلیوں کو خفیہ معلومات جمع کرنے اور پیسوں کے عوض حملے کرنے کے لیے بھرتی کی مسلسل کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
شن بیت کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار شالوم بین حنان کا اس حوالے سے کہنا تھا، ”یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔‘‘ ان کے مطابق یہ حیران کن بات ہے کہ یہودی شہریوں کی اتنی بڑی تعداد جان بوجھ کر انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ تخریب کاری یا حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے ایران کے ساتھ مل کر ریاست کے خلاف کام کرنے پر راضی ہوئی۔
شن بیت اور اسرائیلی پولیس نے اس تناظر میں مزید سوالوں کا جواب نہیں دیا جبکہ ایران کی وزارت خارجہ نے بھی اس حوالے سے کسی سوال کا جواب دینے سے انکار کیا ہے۔
ایران کے مبینہ جاسوس کون تھے؟
اسرائیلی پولیس اور شن بیت نے کہا ہے کہ کم از کم دو مشتبہ افراد کا تعلق اسرائیل کی الٹرا آرتھوڈوکس کمیونٹی سے ہے۔ ماضی میں ایران جاسوسی کے لیے ایک ہائی پروفائل بزنس مین اور کابینہ کے ایک وزیر کو بھی بھرتی کر چکا ہے لیکن نئے مبینہ جاسوس زیادہ تر اسرائیلی معاشرے کے ‘لو پروفائل‘ لوگ تھے۔ ذرائع، عدالتی ریکارڈ اور سرکاری بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ نئے مبینہ جاسوسوں میں حالیہ تارکین وطن، فوج کا ایک بھگوڑا اور ایک جنسی جرائم کے لیے سزا یافتہ ایک مجرم بھی شامل تھے۔
بہر حال عرب شہریوں کے علاوہ بہت سارے یہودی اسرائیلیوں کی گرفتاریوں نے اسرائیل میں ایک ایسے وقت میں تشویش پیدا کر دی ہے، جب وہ غزہ میں حماس کے ساتھ جنگ میں ہے اور حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ابھی تک نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔
21 اکتوبر کو شن بیت نے کہا تھا کہ جاسوسی کی نئی سرگرمیاں ”اسرائیلی ریاست کو معلوم ہونے والی سب سے شدید ترین کارروائیوں میں سے ہیں۔‘‘
شن بیت کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار شالوم بین حنان کے مطابق مبینہ سازشوں کے تفصیلی پبلک اکاؤنٹس فراہم کرنے کا غیر معمولی فیصلہ اسرائیل کی سکیورٹی سروسز کا ایک اہم اقدام تھا، جس کا مقصد ایران اور اسرائیل کے اندر ممکنہ تخریب کاروں، دونوں کو اشارہ کرنا تھا کہ وہ پکڑے جائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ”اس طرح آپ عوام کو خبردار کرنا چاہتے ہیں اور آپ ایسے لوگوں کو مثال بھی بنانا چاہتے ہیں، جن کے دشمن کے ساتھ تعاون کرنے کے ارادے یا منصوبے ہو سکتے ہیں۔‘‘
سوشل میڈیا کے ذریعے بھرتیاں
اسرائیلی حکام کے مطابق ایرانی انٹیلی جنس ایجنسیاں اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ممکنہ بھرتیوں کو تلاش کرتی ہیں۔ اسرائیلی پولیس نے نومبر میں جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں ایران کی ایسی کوششوں کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
بھرتی کی کوششیں بعض اوقات براہ راست بھی ہوتی ہیں۔ نیوز ایجنسی رائٹرز نے ایک ایسا پیغام بھی دیکھا، جو ایک اسرائیلی شہری کو بھیجا گیا تھا اور جس میں معلومات کے بدلے 15 ہزار ڈالر کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس پیغام میں رابطہ کرنے کے لیے ایک ای میل اور ایک نمبر بھی تھا۔
ذرائع میں سے ایک سابق سینئر اہلکار، جس نے سن 2007 تک اسرائیل کی انسداد جاسوسی کی کوششوں پر کام کیا، کے مطابق ایران نے کینیڈا اور امریکہ میں مقیم قفقاذ ممالک کے یہودیوں کے غیر ملکی نیٹ ورکس سے بھی رابطہ کیا ہے۔ اسرائیلی حکام نے عوامی سطح پر بھی کہا ہے کہ کچھ یہودی مشتبہ افراد کا تعلق قفقاذ کے ممالک سے تھا۔