غزہ (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/رائٹرز) غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ منگل کی شب اور بدھ کی صبح تک اسرائیلی حملوں میں مزید کم از کم 29 افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں شمالی غزہ کے ایک گھر میں پناہ لیے ہوئے 19 افراد بھی شامل ہیں۔ یہ تازہ ہلاکتیں ایک ایسے وقت پر ہوئی ہیں، جب امریکی صدر جو بائیڈن کی آئندہ ماہ سبکدوش ہونے والی انتظامیہ کی جانب سے جلد ہی غزہ میں جنگ بندی کی امیدیں ظاہر کی جا رہی ہیں۔ لیکن کئی مہینوں سے جاری جنگ بندی مذاکرات بار بار تعطل کا شکار ہوتے آ رہے ہیں۔
یہ حملہ، جس میں 19 افراد ہلاک ہوئے، اسرائیل کی سرحد کے قریب واقع شمالی غزہ کے قصبے بیت لاہیہ میں کیا گیا۔ ہلاک ہونے والوں کی لاشیں وصول کرنے والے کمال عدوان ہسپتال کی انتظامیہ کے مطابق مرنے والوں میں سے آٹھ افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا، جن میں چار بچے، ان کے والدین اور دادا دادی شامل تھے۔
ہسپتال نے کہا کہ بدھ کو اس کے داخلی راستے کے قریب ایک اور حملے میں ایک خاتون اور اس کے دو بچے بھی ہلاک ہو گئے۔ عودہ ہسپتال کے عملے کے مطابق وسطی غزہ میں نصیرات کے پناہ گزین کیمپ پر کیے گئے ایک اوراسرائیلی حملے میں کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے۔ مرنے والوں میں دو بچے، ان کے والدین اور تین رشتہ دار شامل تھے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے فوری طور پر ان ہلاکتوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ فوج کا کہنا ہے کہ وہ شہریوں کو نقصان پہنچانے سے بچنے کی کوشش کرتی ہے اور حماس کے عسکریت پسندوں پر عام شہریوں کے درمیان چھپنے کا الزام لگاتی ہے، جس سے ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔
اسرائیلی فوج نے بتایا کہ وسطی غزہ سے عسکریت پسندوں نے بدھ کے روز اسرائیل پر چار میزائل فائر کیے، جن میں سے دو کو تباہ کر دیا گیا۔ دیگر دو میزائل کھلے علاقوں میں گرے اور کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
اسرائیلی فوج نے وسطی غزہ میں واقع المغازی مہاجر کیمپ کے ایک بڑے حصے کو خالی کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہاں سے راکٹ فائر کیے گئے تھے۔ ان احکامات میں عندیہ دیا گیا تھا کہ اسرائیل جلد ہی اس علاقے میں فوجی کارروائی کرے گا۔
غزہ میں جاری جنگ اس وقت شروع ہوئی تھی، جب حماس کے عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملہ کیا تھا، جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے، اور تقریباً 250 افراد کو اغوا کر لیا گیا، جن میں بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے۔
غزہ میں حماس کی وزارت صحت کے حکام کے مطابق، اسرائیل کی جوابی عسکری کارروائیوں میں اب تک 45 ہزار کے قریب فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے تھے۔ اسرائیل کا کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر کہنا ہے کہ اس کی فوجی کارروائیوں کے دوران 17 ہزار سے زیادہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
امدادی اشیا کی شدید کمی
اسرائیل نے رواں برس اکتوبر کے اوائل سے شمالی غزہ میں یہ کہتے ہوئے فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کی تھیں کہ حماس کے جنگجو اس علاقے میں دوبارہ منظم ہو رہے تھے۔ اس کے بعد سے اسرائیلی دستوں نے بیت لاہیہ، بیت حانون اور جبالیہ پناہ گزین کیمپ کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس وجہ سے ان علاقوں میں انسانی بنیادوں پر کسی بھی قسم کی امداد کی ترسیل تقریباﹰ بند ہے۔
اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ مذکورہ تینوں علاقے ویران ہیں لیکن اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے دفتر نے منگل کے روز کہا تھا کہ اس کا خیال ہے کہ تقریباً 65,000 سے 75,000 تک لوگ اب بھی وہاں موجود ہیں، جنہیں خوراک، پانی، بجلی یا صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات تک بہت کم رسائی حاصل ہے۔
ماہرین بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہتی ہے، تو شمالی غزہ میں قحط پڑ سکتا ہے۔ غزہ کے لیے اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد اور تعمیر نو کی سینیئر کوآرڈینیٹر زیگرڈ کاگ نے منگل کے روز اقوام متحدہ میں صحافیوں کو بتایا کہ پوری غزہ پٹی میں زندہ رہنے کی کوشش کرنے والے شہریوں کو”مکمل طور پر تباہ کن صورتحال کا سامنا ہے۔‘‘
مذاکرات میں ڈیڈ لاک
امریکہ، مصر اور قطر تقریباً ایک سال سے اسرائیل اور حماس کے مابین مذاکرات میں ثالثی کر رہے ہیں اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ان کوششوں نے حال ہی میں مزید زور پکڑا ہے۔ لیکن حماس کا کہنا ہے کہ وہ بقیہ اسرائیلی یرغمالیوں کو غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی فوجوں کے مکمل انخلا تک رہا نہیں کرے گی۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے حماس کی مکمل تباہی اور تمام یرغمالیوں کی واپسی تک جنگ جاری رکھنے کا عہد کیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل بعض علاقوں میں دیرپا فوجی موجودگی برقرار رکھے گا۔