508

شام:’انسانی مذبح خانے‘ کے نام سے مشہور ’صیدنایا جیل‘ کے قیدیوں کی دلدوز کہانیاں

دمشق (ڈیلی اردو/وی او اے) انہوں نے میرے پیٹ پر بجلی کی راڈ استعمال کی اور میرے سر پر ضربیں لگائیں انہوں نے میرے ناخن الگ کر دئے اور میرے جسم کو سگریٹ سے جلایا۔ س اذیت سے بچنےکےلیے مرجانا چاہتا تھا،انہوں نے میرے ساتھ بہت کچھ ایسا کیا جن کے بارے میں میں آج تک بات نہیں کر سکتا۔ ہمارا جرم کیا تھا؟”

یہ الفاظ تھے اسد حکومت کے دور کے ایک سابق شامی قیدی بشیر منصور کے جنہوں نے قید کےدوران دی جانےوالی اذیتوں کی کہانی وی اے او کی مینڈرین سروس کو فون میسیجنگ ایپ اور ای میل کےذریعےسنائی۔

روسی سرکاری میڈیا کے مطابق جب سے اسد روس فرار ہوئے ہیں، انہیں معزول کرنے والے، القاعد ہ کے ایک سابق ساتھی گروپ ہیئت التحریر الشام، یا ایچ ٹی ایس کی زیر قیادت ملیشیائیں ہزاروں قیدیوں کو رہا کر رہی ہے۔

ایسے میں جب شام کےشہر ی اسد حکومت کے خاتمے پر سڑکوں پر خوشی منارہے ہیں بہت سے شامی شہری اسد دورمیں قید کیے گئے اپنے عزیزوں کو جیلوں میں تلاش کر رہے ہیں ۔ان میں ایک درعا سے تعلق رکھنے والے انور ایٹنیش بھی ہیں ۔

انور تیرہ سال قبل اسد حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران حکومتی فوجیوں کے ہاتھوں درعا میں گرفتار ہونے والے اپنے اس 55 سالہ کزن کو تلاش کرنے کے مشن پرہیں جنہیں گرفتاری کے بعد سے کبھی بھی نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی خبر ملی ہے۔

وہ ان تقریباً ایک لاکھ 37 ہزار شامیوں میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ خانہ جنگی کے دوران فوجی جیلوں میں غائب ہو گئے تھے۔

انور نے دمشق سے ایک ویڈیو کال میں وی او اے مینڈرین سروس سے بات کرتے ہوئےکہا کہ، مجھے نہیں معلوم کہ آیا وہ زندہ ہیں یا نہیں ۔ میں سات بجے صبح مسجد گیا تھا اورپھر ان کی تلاش میں ایک جیل سے دوسری جیل جارہا ہوں ۔اب تک میں 9 جیلوں میں جاچکا ہوں ۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس جیل میں ہیں۔

برطانیہ میں قائم سیرین نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ شامی حکومت کے تفتیش کاروں نے 2011 سے اب تک 15ہزار سے زیادہ قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

ہمارا جرم کیا تھا؟

بشیر منصور ان خوش قسمت قیدیوں میں سے ایک ہیں جو زندہ بچ گئے۔ انہوں نے کہا کہ 2011 میں اسد حکومت کے فوجیوں نے ان پر اور ان کے یونیورسٹی کے دوستوں پر اس وقت گولیاں چلائیں جب انہوں نے حکومت کے زیر محاصرہ درعا کے رہائشیوں کو اہم ادویات اور خوراک پہنچانے کی کوشش کی۔

منصور نے کہا کہ ان کے ساتھ موجود دو دوستوں کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ انہیں اور زندہ بچ جانےوالے دوسروں کو زبردستی ٹرکوں پرلادا گیا، آنکھوں پر پٹی باندھی گئی، مارا پیٹا گیا اور بیت الخلا کی ایک چھوٹی سی جگہ میں ٹھونس دیا گیا ، جہاں ان کے بقول انہیں قید کر کے رکھا گیا، انہیں وحشیانہ مار پیٹ اور نیند کی کمی کے ساتھ اذیت کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں کچھ قیدی ہلاک ہو گئے۔

منصور نے کہا، “انہوں نے میرے پیٹ کے حصے میں ایک الیکٹرک راڈ کا استعمال کیا اور میرے سر پر ضربیں لگائیں انہوں نے میرے ناخن الگ کر دئے اور میرے جسم کو سگریٹ سے جلایا۔ میری خواہش تھی کہ میں اس اذیت سے نجات پانے کے لیے مر جاؤں۔ انہوں نے میرے ساتھ بہت کچھ ایسا کیا جن کے بارے میں میں آج تک بات نہیں کر سکتا۔ ہمارا جرم کیا تھا؟”

منصور نے کہا کہ ان پر سب سے زیادہ تشدد دمشق کے علاقے کی ایک فوجی جیل میں، ہسپتال کے عملے نے کیا، جہاں انہیں تشدد کے دوران شدید زخمی ہونے کے بعد داخل کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتال میں دس دن تک قیام کے دوران ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ہتھکڑیاں لگا کر رکھا گیا۔

منصور نے یاد کرتے ہوئے کہا، “ہسپتال میں آخری دن انہوں نے میرے ہاتھوں اور پیروں سے ہتھکڑیاں ہٹا دیں اور مجھے ٹانگیں ہلانے کو کہا۔” “میں نے اپنی ٹانگیں اور ہاتھ ہلانے کی کوشش کی لیکن نہیں کر سکا۔ میں اپنے جسم کا ایک حصہ بھی نہیں ہلا سکتا تھا میں نے رونا شروع کر دیا اور ان سے التجا کی کہ وہ مجھے جان سے مار دیں کیوں میں مفلوج طور پر زندہ نہیں رہنا چاہتا تھا۔… انہوں نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا اور میری زندگی اور میرا مستقبل چرا لیا۔ ‘‘

اب ہم واپس جا سکتے ہیں۔

آج منصور وہیل چیئر استعمال کرتےہیں اور نارتھ کیرولائنا میں رہتے ہیں جہاں وہ ائیر پورٹ پر کام کرتے ہیں اور کمپیوٹر پروگرامنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ وہ شام میں رونما ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ۔

انہوں نے وی او اے مینڈرین کو بتایا، “میرا خاندان دنیا بھر میں بکھرا ہوا ہے۔ کچھ جرمنی میں ہیں، کچھ ہالینڈ میں ہیں، کچھ فرانس اور کویت میں ہیں۔ میں نے انہیں 11 سال سے نہیں دیکھا۔ میں شام واپس جانا چاہوں گا ، صرف ان کے ساتھ ملنےاور انہیں دیکھنے ۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ حکومت ختم ہو چکی ہے ۔ اب ہم شام واپس جا سکتے ہیں ۔‘‘

لیکن شام واپس جانا شاید آسان نہ ہو۔

شام میں ہیئت التحریر الشام کی زیر قیادت ملیشیاؤں کے گروپ نے منگل کو ایک عبوری وزیر اعظم کا اعلان کیا ہے لیکن انہوں نے ابھی تک شام میں حکومت کے لیے اپنے تفصیلی منصوبوں کا اعلان نہیں کیا ہے۔

اسی دوران ملک کے اندر، مقامی لوگ، جن میں ایٹنیش جیسے لوگ شامل ہیں، جو ابھی تک اپنے قیدی رشتے داروں کو ڈھونڈھ رہے ہیں، ایک نئی حقیقت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، ایک ایسا شام جہاں اسد کی حکمرانی نہیں ہے ۔

ایٹنیش نے کہا، میں شاک میں ہوں ۔ یہ ایک خواب ہے، حکومت ختم ہو گئی ہے۔ کسی بھی جگہ شامی فوجی نہیں ہیں ۔ لوگ خوش ہیں ۔ یہ ناقابل یقین ہے۔ اور ہم سب اپنے عزیزوں کے بارے میں خبروں کا انتظار کر رہے ہیں ۔ بیشتر شامیوں کا کوئی نہ کوئی عزیز ایسا ہے جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ وہ جیل میں ہے۔

دمشق میں پیر کی دوپہر تک، ایٹنیش کو اپنے کزن کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی تھی۔ انہوں نے وی او اے مینڈرن کو بتایا کہ وہ درعا میں اپنے گھر واپسی سے پہلے ایک اور ہفتہ اپنے کزن کو تلاش کریں گے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں