کوئٹہ (ڈیلی اردو/وی او اے) ’’میں گزشتہ ہفتے قلات اپنی کراکری کی دکان میں بیٹھا تھا کہ میرے موبائل فون پر نامعلوم نمبر سے پیغامات آنا شروع ہوئے جن میں مجھ سے 15 لاکھ روپے بھتہ طلب کیا جا رہا تھا۔‘‘
یہ الفاظ ہیں بلوچستان کے ضلع قلات کے ایک ہندو تاجر کے، جو سیکیورٹی خدشات کے باعث اپنا نام بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔
اس تاجر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان سے 15 لاکھ روپے بھتہ مانگا گیا اور عدم ادائیگی پر قتل کی دھمکی دی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد وہ خوف کا شکار ہیں اور کئی دن سے دکان نہیں جا رہے۔
ان کے بقول ان کا کاروبار تباہ ہو گیا ہے۔ کراکری کی یہ دکان ان کے بچوں کی کفالت کا واحد ذریعہ ہے۔
یہ صرف قلات کے اس ایک تاجر کی کہانی نہیں ہے بلکہ ایک درجن سے زائد ہندو تاجروں کو اسی نوعیت کے پیغامات موصول ہوئے ہیں۔
ایک اور تاجر رام داس (فرضی نام) نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قلات میں ان کا ایک جنرل اسٹور ہے وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں کاروبار کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں انہیں بھی موبائل فون پر نامعلوم افراد نے دھمکی دی تھی کہ انہیں پانچ لاکھ روپے پہنچا دیے جائیں ورنہ انہیں جان سے مار دیں گے۔
قلات میں تاجروں کو ملنے والی دھمکیوں کے سبب یہاں مقیم ہندو برادری تشویش کا شکار ہے۔
ضلع قلات میں ہندو برادری کے ایک سرکردہ رہنما ڈاکٹر ہری چند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایک ماہ کے دوران 15 ہندو تاجروں کو موبائل پر بھتہ دینے کے پیغامات موصول ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہندو برادری طویل عرصے سے قلات سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں پر امن انداز میں رہ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں تاجروں کو ملنے والی دھمکیوں کے بعد سے یہ برادری خوف کا شکار ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہم پاکستانی شہری ہیں اور ہمارا جینا مرنا اس ملک کے ساتھ ہے۔‘‘
انہوں نے اداروں اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ریاست کو چاہیے کہ وہ ہندؤ برادری کو تحفظ فراہم کرے۔
ایک برس قبل 2023 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق بلوچستان میں ہندوؤں کی تعداد 57 ہزار ہے۔
قلات بلوچستان کا قدیم شہر ہے اور یہاں ہندو برادری کی آبادی بھی اتنی ہی قدیم ہے۔
قلات میں واقع ’کالی ماتا کا مندر‘ ہندو برادری کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ یہ مندر تاریخی اور مذہبی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔
قلات میں ہندو برادری کو اقلیت کہا جاتا ہے۔ تاہم یہاں زیادہ تر دکانوں کے مالک ہندو تاجر ہیں۔
بلوچستان میں ماضی میں بھی ہندو برادری کے خلاف مختلف جرائم کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
ان واقعات میں ہندو تاجروں اور سرکردہ رہنماؤں کے اغوا، قتل اور بھتہ وصولی جیسے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ 2014 میں بلوچستان میں بد امنی کے واقعات کے باعث بڑی تعداد میں ہندو دوسرے علاقوں میں چلے گئے تھے جن میں بعض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھارت ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔
سال 2020 میں خضدار کی تحصیل وڈھ میں ایک ہندو تاجر نانک رام کو نامعلوم افراد نے ان کی دکان میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا جس کے بعد اس برادری نے شدید احتجاج بھی کیا تھا۔ 2021 میں خضدار کی تحصیل وڈھ میں ہی ایک اور ہندو تاجر اشوک کمار کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد نامعلوم افراد نے مختلف مقامات پر دھمکی آمیز پوسٹر لگائے تھے جن میں ہندو تاجروں کو تنبیہ کی گئی تھی کہ وہ مقامی خواتین کو اپنی دکانوں میں داخلے کی اجازت نہ دیں، بصورتِ دیگر اُنہیں نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس حوالے سے آواز اٹھاتی رہی ہیں کہ بلوچستان میں ہندو اقلیت عدم تحفظ کا شکار ہے۔
قلات میں ہندو برادری کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکام اجلاس بھی منقعد کرتے رہتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر بلال شبیر کی صدارت میں اس برادری کے تحفظات پر ایک اجلاس ہوا جس میں مقامی اور قبائلی رہنماوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں ہندوؤں کو ہر ممکن سیکیورٹی فراہم کرنے کی ایک بار پھر یقین دہانی کرائی گئی۔
ڈپٹی کمشنر قلات بلال شبیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہندو تاجروں کو جن موبائل فون نمبروں سے پیغامات موصول ہوئے تھے وہ تحقیقات کے لیے خفیہ اداروں اور ایف آئی اے کو ارسال کیے جا چکے ہیں۔
ان کے بقول قلات کے بازار میں ہندو تاجروں کے کاروبار کے لیے سیکیورٹی سخت کی جا رہی ہے۔ بازار میں پولیس کے 12 اہلکار تعینات ہوں گے تاکہ کوئی نا خوشگوار واقعہ نہ ہو۔