نیو یارک (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے پاکستان میں لڑکیوں کے اسکولوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے تعلیم کے ناقابل تنسیخ حق کی حفاظت کرے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے پاکستان میں لڑکیوں کے اسکولوں پر ہونے والے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے اور وزیرستان میں لڑکیوں کے اسکولوں کے تحفظ پر کی جانے والی تحقیقات اور اس حوالے سے اقدامات کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کے شمالی اور جنوبی وزیرستان نیز صوبہ بلوچستان کے قلات ڈویژن کے ضلع سوراب میں نامعلوم مسلح افراد کی طرف سے لڑکیوں کے نجی اسکولوں پر دھماکہ خیز مواد سے کیے گئے حملوں کا حوالہ دیا ہے۔
انہوں نے اس پہلو کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسکولوں میں اوسطاً لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کے داخلے کی شرح کافی کم ہے اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں یہ حالت بدتر ہے۔
اقوام متحدہ کے نمائندوں نے کیا کہا؟
تعلیم کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فریدہ شاہد، خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے لیے خصوصی نمائندہ ریم السلیم اور خواتین نیز لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر ورکنگ گروپ کی چیئر رپورٹر لورا نیرنکنڈی نے اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو ایک مکتوب تحریر کیا ہے۔
انہوں نے عسکریت پسند گروپوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خط میں لکھا ہے کہ “ہم ان تنظیموں کے ذریعہ لڑکیوں کے اسکولوں کے خلاف جاری دہشت گردانہ حملوں سے پریشان ہیں، جو خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں۔”
ان کا مزید کہنا ہے، “ہم نے نوٹ کیا ہے کہ اسکولوں پر ہونے والے یہ تمام حملے گھناؤنے ہیں، تاہم سب سے اہم یہ ہے کہ لڑکیوں کے اسکولوں کے خلاف ہدف بناکر کیے گئے یہ حملے خواتین اور لڑکیوں کو نہ صرف تعلیم حاصل کرنے سے روکتے ہیں بلکہ معاشرے میں امتیازی سلوک اور عدم مساوات کو برقرار رکھنے کا کام بھی کرتے ہیں۔”
تینوں ماہرین نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں لڑکیوں کے اسکول میں جہاں داخلے کے امکانات کم ہیں، وہیں اسکول میں ان کی تعلیم جاری رہنے کے امکانات بھی کم ہیں اور اگر وہ اسکول جاتی بھی ہیں، تو ان کے سیکھنے کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔
ان کے بقول دیہی علاقوں کی “لڑکیاں بدترین تعلیمی نتائج کا شکار ہوتی ہیں اور وہی سب سے زیادہ غربت اور ایسی سماجی و ثقافتی روایات جیسے عوامل کی بھی شکار ہیں، جو انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے سے روکتے” ہیں۔
مکتوب میں کہا گیا ہے کہ “پاکستان میں لڑکیاں غیر متناسب طور پر تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں اسکولوں کی کمی، اسکول جانے کے دوران (ہراساں کیے جانے سمیت) سکیورٹی کے خدشات اور بچپنے میں ہی شادیاں کر دینے نیز غربت میں رہنے والے خاندانوں پر تعلیم پر آنے والی لاگت جیسے عوامل شامل ہیں۔”
اقوام متحدہ کے ماہرین نے حکومت کو اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت خواتین کے حقوق، ان کی بنیادی آزادیوں کا احترام اور ان کے تحفظ کو پورا کرنا ریاستوں کی قانونی ذمہ داریاں ہیں۔
ادریس خٹک کی رہائی کا مطالبہ
ادھر ایک دیگر پیش رفت میں جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں کے ایک گروپ نے حکومت پاکستان سے انسانی حقوق کے علمبردار ادریس خٹک کی فوری اور غیر مشروط رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
پیر کے روز جنیوا میں جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں انسانی حقوق کے ماہرین نے کہا: “ہم خٹک کی آزادی کی مسلسل محرومی سے پریشان ہیں، جو واضح طور پر انسانی حقوق سے متعلق ان کے کام کے خلاف براہ راست انتقامی کارروائی معلوم ہوتی، جس میں وہ پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں نسلی اقلیتوں کے خلاف جبری گمشدگیوں کے اعداد و شمار کو جمع کرنے کا کام بھی کیا کرتے رہے ہیں۔”
اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ خٹک کے کیس کے حوالے سے پاکستانی حکام سے رابطے میں ہیں۔
واضح رہے کہ فوجی عدالت میں خٹک کے مقدمے کی سماعت کے بعد، انہیں سن 2021 میں مجرم قرار دیا گیا تھا اور پھر انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خٹک کے ساتھ ہونے والی خلاف ورزیوں کی آزادانہ، غیر جانبدارانہ، موثر اور مکمل تحقیقات کو یقینی بنائے اور ذمہ داروں کی نشاندہی کر کے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائے۔