اسلام آباد + کابل (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی/نیوز ایجنسیاں) پاکستانی طیاروں نے افغانستان کے مشرقی صوبہ پکتیکا میں ‘ٹی ٹی پی’ کے کیمپوں پر بمباری کی ہے، جس میں کئی مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا ہے۔ افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے بیشتر عام شہری ہیں۔
پاکستان کے جنگی طیاروں نے منگل کی رات میں افغانستان کے مشرقی صوبہ پکتیکا میں کالعدم گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کیمپ بتائے جانے والے چار مقامات پر بمباری کی، جس میں کئی مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک اور زخمی کرنے کا دعوی کیا گیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے پاکستان کے چار سکیورٹی حکام کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ ان فضائی حملوں میں افغانستان کے اندر متعدد مشتبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں ایک تربیتی مرکز کو ختم کرنے کے ساتھ ہی متعدد طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا گیا۔
اے پی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سکیورٹی اہلکاروں نے یہ معلومات اس شرط پر فراہم کیں کہ ان کا نام مخفی رکھا جائے کیونکہ وہ ایسی اطلاعات افشاں کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔
حکام نے بتایا کہ یہ حملے پاکستان کی سرحد سے متصل صوبہ پکتیکا کے ایک پہاڑی علاقے میں کیے گئے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا جیٹ طیارے افغانستان کے اندر کتنی دور تک گئے اور حملوں کی نوعیت کیا تھی۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ کہ اس حملے میں “ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد 46 ہے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس میں چھ افراد زخمی ہوئے ہیں اور اس میں بھی زیادہ تر بچے شامل ہیں۔
پاکستان کے معروف میڈیا ادارے ڈان نے اپنے ذرائع کے حوالے سے یہ اطلاع دی ہے کہ پکتیکا کے ضلع برمال کے علاقے مرغا اور لامان میں ٹی ٹی پی کے کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں سے ایک وہ کیمپ بھی شامل ہے، جسے شیر زمان عرف مخلص یار، کمانڈر ابو حمزہ، کمانڈر اختر محمد اور ٹی ٹی پی کے میڈیا بازو کے سربراہ عمر استعمال کیا کرتے تھے۔
پاکستانی فوج کی جانب سے ان حملوں کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ مارچ کے بعد سے پاکستانی طالبان کے مبینہ ٹھکانوں پر یہ دوسرا فضائی حملہ بتایا جا رہا ہے۔ مارچ میں پاکستان نے انٹیلیجنس کی اطلاعات پر مبنی افغانستان کے اندر سرحدی علاقوں میں حملہ کرنے کی تصدیق بھی کی تھی۔
افغان طالبان نے حملوں کی تصدیق کی
افغانستان کی وزارت دفاع نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں پاکستانی فورسز کی جانب سے کیے گئے ان حملوں کی رپورٹوں کی تصدیق کی ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں کئی بچے اور دیگر عام شہری شامل ہیں۔
افغانستان کے وزیر دفاع عنایت اللہ خوارزمی نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، “قومی وزارت دفاع کا صوبہ پکتیکا میں پاکستانی فوج کی وحشیانہ بمباری پر ردعمل: پاکستانی فوج نے آج شام صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل پر بمباری کی۔ بمباری میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں زیادہ تر وزیرستانی مہاجرین تھے۔”
خوارزمی نے مزید کہا کہ “امارت اسلامیہ افغانستان اس وحشیانہ عمل کو تمام بین الاقوامی اصولوں کے منافی سمجھتی ہے، یہ کھلی جارحیت ہے اور اس کی شدید مذمت کرتی ہے۔ پاکستانی فریق کو جان لینا چاہیے کہ اس طرح کی من مانی کارروائیاں کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔”
افغان وزارت دفاع نے مزید کہا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کے دفاع کو ایک ناقابل تنسیخ حق سمجھتا ہے اور اس “بزدلانہ کارروائی کا جواب دیا جائے گا۔”
مرنے والوں کی کل تعداد 46 ہے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔” ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مزید چھ افراد زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر بچے ہیں۔
پاکستانی وفد کا دورہ کابل اور افغان حکام سے ملاقاتیں
پاکستان کی جانب سے یہ حملے ایسے وقت کیے گئے ہیں، جب افغانستان کے لیے اسلام آباد کے خصوصی نمائندہ محمد صادق کی قیادت میں ایک پاکستانی وفد کابل میں تھا، اور وہاں اس نے طالبان کے عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور وزیر خارجہ امیر متقی سے ملاقات کی۔
پاکستانی وفد کے کابل آنے کا مقصد گزشتہ ایک سال کے طویل وقفے کے بعد فریقین میں سفارتی بات چیت کو دوبارہ شروع کرنا تھا۔
منگل کے روز ہی سوشل میڈیا ایکس پر ایک پوسٹ میں سفیر صادق نے اس حوالے سے کہا، “آج وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی۔ ان سے وسیع پیمانے پر بات چیت ہوئی۔ دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ خطے میں امن اور ترقی کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق بھی ہوا۔”
سفیر صادق نے پیر کے روز افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے بھی ایک الگ ملاقات کی تھی، جہاں فریقین نے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔
واضح رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کے سبب دونوں ممالک کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاتی ہے، تاہم اس کے باوجود دونوں ممالک نے حال ہی میں سفارتی بات چیت دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا۔