عرب ممالک کی طرف سے ‘گریٹر اسرائیل’ نقشے کی مذمت

ریاض (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/نیوز ایجنسیاں) اسرائیل نے عربی زبان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایک نقشہ شائع کیا ہے، جس میں عرب ممالک کی زمینوں پر تاریخی علاقائی حقوق کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ‘گریٹر اسرائیل’ کے اس نقشے کی اشاعت پر عرب دنیا میں شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک نے اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شائع کیے گئے اس نام نہاد ‘گریٹر اسرائیل’ کے نقشے کی شدید مذمت کی ہے، جس میں فلسطین، اردن، لبنان اور شام پر ”تاریخی علاقائی حقوق‘‘ کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے یہ نقشہ ایک ایسے وقت پر شائع کیا گیا ہے، جب اسرائیلی حکومت میں شامل کٹر سوچ کے حامل وزراء مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے کے دوبارہ مکمل الحاق اور غزہ پٹی میں دوبارہ اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کی بات کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ مارچ 2023ء میں انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزل اسموٹریچ پیرس میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران ‘گریٹر اسرائیل‘ کے ایک نقشے کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے، جس میں اردن کو ان کے ملک کا حصہ دکھایا گیا تھا۔

اس متنازعہ اسرائیلی نقشے کی سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اشاعت نے بڑے پیمانے پر ردعمل کو جنم دیا ہے۔ متعدد عرب ممالک نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خطے کے ممالک اور عوام کے خلاف اسرائیلی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اپنی ذمہ داری قبول کریں۔

https://x.com/IsraelArabic/status/1876226997585641924?t=j9dAKig8x23Q5azl45z6Tg&s=19

سعودی عرب کا ردعمل

سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس ”تاریخی اسرائیلی ریاست‘‘ کے ”خود ساختہ نقشوں‘‘ کی اشاعت کی مذمت کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا ہے۔

سعودی عرب نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس طرح کے ”انتہا پسندانہ اقدامات‘‘ اسرائیل کے اپنے قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خود مختاری پر حملے جاری رکھنے اور عالمی قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔

سعودی عرب نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ خطے کے ممالک اور عوام کے خلاف اسرائیلی خلاف ورزیوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

قطر اور متحدہ عرب امارات کا بیان

قطری وزارت خارجہ نے اس اسرائیلی نقشے کی اشاعت کو ”عالمی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی دفعات کی صریح خلاف ورزی‘‘ قرار دیا ہے۔

دوحہ میں وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ اس مبینہ نقشے کی اشاعت خاص طور پر غزہ پٹی پر جاری جنگ کے تناظر میں خطے میں امن کے امکانات کو متاثر کرے گی۔

قطری وزارت خارجہ نے بھی بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈال کر اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں پوری کرے تاکہ وہ عالمی قانونی قراردادوں کی تعمیل کرے اور اپنے عزائم سے باز رہے۔

متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے بھی اس اسرائیلی اقدام کو ’’قبضے کو وسعت دینے کی دانستہ کوشش اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی‘‘ قرار دیا ہے۔

اماراتی وزارت خارجہ نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کے ”تمام اشتعال انگیز اقدامات اور بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی کے تمام اقدامات‘‘ کو واضح طور پر مسترد کرنے پر زور دیا۔

اس وزارت نے متنبہ کیا کہ ایسے اقدامات سے کشیدگی میں مزید اضافے کا خطرہ ہے اور خطے میں امن و استحکام کے حصول کی کوششوں میں مزید رکاوٹ پیدا ہو گی۔

حماس اور فلسطینی اتھارٹی نے کیا کہا؟

فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے اس نقشے کو اسرائیل کے ”توسیع پسندانہ عزائم‘‘ کا مظہر قرار دیتے ہوئے عرب اور مسلم اکثریتی ممالک کی حکومتوں سے اس عمل کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا۔ خیال رہے کہ امریکہ، اسرائیل اور جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ غزہ کی موجودہ جنگ سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل میں حماس کے اس دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد شروع ہوئی تھی، جس میں 1200 کے قریب اسرائیلی مارے گئے تھے اور واپس غزہ جاتے ہوئے فلسطینی عسکریت پسند تقریباﹰ 250 اسرائیلیوں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔

فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے اس نقشے کو ”تمام بین الاقوامی قراردادوں اور قوانین کی کھلی خلاف ورزی‘‘ قرار دیا ہے۔ العربیہ نیوز چینل کے مطابق عرب لیگ نے بھی اس نقشے کی مذمت کی ہے اور اس کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیث نے خبردار کیا کہ اس قسم کی اشتعال انگیزی خطے میں انتہا پسندی میں اضافہ کر سکتی ہے۔

اردن کی وزارت خارجہ نے بھی اس نقشے کو ”دعوے اور وہم‘‘ قرار دے کر سخت الفاظ میں اس کی مذمت کی اور کہا کہ یہ ”اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام‘‘ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں