دوحہ + واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی/رائٹرز ) قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان التھانی نے قطر میں بدھ کو رات گئے ایک پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ معاہدے کا آغاز اتوار 19 جنوری سے ہو گا اور اس کی مخصوص ٹائمنگ پر تاحال فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’امید ہے کہ یہ جنگ کے اختتام کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔‘
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اس معاہدے کی تصدیق کی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے نائب صدر کملا ہیرس اور وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ’جلد ہی یرغمالی اپنے گھروں میں خاندان والوں کے ساتھ ہوں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ معاہدے میں مکمل جنگ بندی، اسرائیلی فوجوں کے غزہ سے انخلا اور حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل بدلے میں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں فلسطینی اپنے علاقوں میں اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے اور غزہ کی پٹی پر انسانی امداد کی فراہمی بڑھائی جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات میں دوسرے مرحلے میں جنگ کے مکمل خاتمے کے حوالے سے ضروری تیاروں پر بات ہو گی۔ اگر یہ مذاکرات چھ ہفتوں سے زیادہ عرصے تک جاری رہتے ہیں تو جنگ بندی جاری رہے گی۔
بائیڈن کا کہنا ہے کہ تیسرے مرحلے میں بقیہ یرغمالیوں کو اپنے خاندانوں تک پہنچانا ہو گا اور غزہ میں تعمیر نو کا کام شروع ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے تک پہنچنا ’آسان نہیں تھا اور ان کے تجربے کے مطابق یہ سب سے مشکل مذاکرات میں سے ایک تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایران گذشتہ دہائیوں کے مقابلے میں خاصا کمزور ہے اور حزب اللہ بھی ’بری طرح کمزور ہو چکا ہے۔‘
بائیڈن کا کہنا تھا کہ 15 ماہ کی جنگ کے بعد حماس کے سینیئر رہنما ہلاک ہو چکے ہیں، ہزاروں جنگجو بھی مارے گئے ہیں اور اب یہ آپریشنل اعتبار سے کمزور ہو چکی ہے اس لیے اس نے معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی اور صدر ٹرمپ کی ٹیم نے ’ایک ٹیم‘ کے طور پر ان مذاکرات میں کردار ادا کیا ہے۔
نائب وزیر اعظم کملا ہیرس اور وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں ’غزہ میں لڑائی رک سکے گی، فلسطینی شہریوں کو انسانی امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی اور یرغمالیوں کو ان کے خاندانوں کے ساتھ 15 ماہ کی قید کے بعد ملنے کا موقع ملے گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے تک پہنچنا ’آسان نہیں تھا اور ان کے تجربے کے مطابق یہ سب سے مشکل مذاکرات میں سے ایک تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ایران گذشتہ دہائیوں کے مقابلے میں خاصا کمزور ہے اور حزب اللہ بھی ’بری طرح کمزور ہو چکا ہے‘ جبکہ حماس نے بھی اپنے متعدد سینیئر رہنماؤں اور جنگجوؤں کی ہلاکت کے بعد اس معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔
تاہم اب بھی بہت سے اہم نکات موجود ہیں جو اسے مستقل جنگ بندی کا معائدہ بننے سے روک سکتے ہیں۔ اس معاہدے کی تفصیلات کے حوالے سے تاحال باضابطہ طور پر اعلان تو نہیں کیا گیا ہے لیکن بی بی سی کو اس حوالے سے مذاکرات سے جڑے اہلکاروں نے معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’ہم مشرق وسطیٰ میں یرغمالیوں سے متعلق ڈیل حاصل کر چکے ہیں۔‘
ٹروتھ سوشل پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم مشرق وسطیٰ میں یرغمالیوں سے متعلق ڈیل حاصل کر چکے ہیں۔ انھیں جلد ہی رہا کر دیا جائے گا۔ تھینک یو۔‘
امن معاہدے کی شرائط کیا ہیں؟
امریکہ نے غزہ میں 15 ماہ سے جاری تنازع کے خاتمے کے لیے امن معاہدے کے لیے کچھ وسیع شرائط وضع کی تھیں۔ اس کے بعد سے اسرائیل اور حماس کے حکام قطر، مصر اور امریکہ کے ثالثوں کے ذریعے تفصیلات پر بات چیت کر رہے تھے۔
معاہدے کا مسودہ تین مراحل پر مشتمل ہے جس کے بارے قطری وزیرِ اعظم کو امید ہے کہ یہ ’مستقل جنگ بندی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔‘
خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے ایک فلسطینی عہدیدار کے مطابق مجوزہ امن منصوبے کا پہلا مرحلہ 42 دن یا 60 دن تک جاری رہنے والی جنگ بندی ہے۔
ایک فلسطینی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ حماس معاہدے کے پہلے مرحلے میں 33 یرغمالیوں کو رہا کر دے گی۔ اس کے بعد آئندہ ہفتوں میں مزید یرغمالیوں کی رہائی کا عمل روک دیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مسودے میں کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے کے دوران مجموعی طور پر 33 یرغمالیوں کو اسرائیل واپس بھیجا جائے گا۔ ان میں:
* بچے
* خواتین، بشمول خواتین فوجی
* 50 سال سے زیادہ عمر کے مرد
* زخمی اور بیمار افراد
فیز ون: 42 روزہ جنگ بندی
بی بی سی سے گفتگو کرنے والے فلسطینی عہدیدار کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے پہلے روز حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے تین افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے گا۔
اسرائیل کا ماننا ہے کہ ان یرغمالیوں میں سے زیادہ تر زندہ ہیں لیکن حماس کی جانب سے ان کے بارے میں کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان میں سے 94 غزہ میں موجود ہیں جن میں سے 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔ چار اسرائیلی ایسے بھی ہیں جنھیں جنگ سے پہلے اغوا کیا گیا تھا، جن میں سے دو ہلاک ہو چکے ہیں۔
جنگ بندی سے متعلق تجویز کردہ مسودے میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کے 16ویں دن اسرائیل اور حماس امن منصوبے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے پر مذاکرات شروع کریں گے۔ اس میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے باقی تمام زندہ یرغمالیوں کی واپسی شامل ہو گی۔
اسرائیل شمالی غزہ میں بے گھر ہونے والے رہائشیوں کو علاقے کے جنوب سے واپس آنے کی اجازت دے گا، بشرطیکہ ہتھیاروں کی جانچ پڑتال کی جائے۔
پیدل سفر کرنے والے افراد کو ساحلی روڈ کے ذریعے غزہ میں اپنے گھروں تک جانا ہو گا۔ جو لوگ گاڑیوں کے ذریعے سفر کریں گے انھیں صلاح الدین روڈ کے ذریعے وسطی غزہ میں داخلے کی اجازت ہو گی۔
غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے تقریباً تمام کو اسرائیلی انخلا کے احکامات، اسرائیلی حملوں اور جنگ کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنے پڑے ہیں۔
جنگ بندی کے آغاز کے چند روز بعد اسرائیلی فوجی غزہ کی پٹی سے مرحلہ وار انخلا کے حصے کے طور پر وسطی غزہ میں نیٹزاریم کوریڈور سے نکلنا شروع کر دیں گے۔
تاہم اسرائیل مصر کے ساتھ غزہ کی جنوبی سرحد کے ساتھ فلاڈیلفیا کوریڈور میں کچھ فوجی رکھے گا۔
مصر اور غزہ کے درمیان رفح کراسنگ کو آہستہ آہستہ بیمار اور زخمی افراد کے علاج کے لیے علاقہ چھوڑنے کے لیے کھول دیا جائے گا اور مزید انسانی امداد کی اجازت دی جائے گی۔
فیز ٹو: بقیہ یرغمالیوں کی اسرائیل کو حوالگی
جنگ بندی کے دوسرے فیز میں زندہ مرد فوجیوں اور شہریوں کو اسرائیل کے حوالے کیا جائے گا، جبکہ مارے جانے والے یرغمالیوں کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کی جائیں گی۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس وقت 94 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 34 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ اس کے علاوہ غزہ میں چار مزید اسرائیلی شہری بھی موجود ہیں جنھیں جنگ کے شروع ہونے سے قبل اغوا کیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق حماس کے جن جنگجوؤں نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا انھیں رہا نہیں کیا جائے گا۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بعد ہی اپنے فوجیوں کو مکمل طور پر واپس بلالے گا۔
اس کے بعد یہ مبینہ طور پر غزہ کے مشرقی اور شمالی اطراف میں 800 میٹر چوڑے بفر زون برقرار رکھے گا جو اسرائیل کی سرحد سے متصل ہے اور غزہ پر سکیورٹی کنٹرول برقرار رکھے گا۔
فیز تھری: غزہ کی تعمیرِ نو
توقع کی جا رہی ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کا تیسرا فیز غزہ کی تعمیر نو سے متعلق ہے۔ خیال رہے کہ حماس اور اسرائیل کی جنگ کے دوران غزہ کا بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
غزہ کا بہت بڑا حصہ ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے لہٰذا اس مرحلے یعنی تعمیرِ نو کے کام میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
کن نکات پر اتفاق ہونا باقی ہے؟
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے اور تیسرے مرحلے پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ ان کے بارے میں مذاکرات ابتدائی جنگ بندی کے 16 ویں دن شروع ہوں گے۔
لیکن اب بھی کُچھ سوالات موجود ہیں۔ یہاں سب سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ: غزہ کے انتظامی امور کس کے ہاتھ میں ہوں گے؟
غزہ کے انتظامی امور کس کے ہاتھ میں ہوں گے؟
اسرائیل غزہ کا انتظام حماس کو دینے کے حق میں نہیں ہے اور اس نے اس کے اتنظامی امور فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے جو کہ غربِ اردن میں اسرائیل کے قبضے میں موجود متعدد علاقوں کا انتظام سنبھالتی ہے۔
اسرائیل موجودہ تنازع کے اختتام کے بعد بھی غزہ کی سکیورٹی کنٹرول اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے۔
تاہم اسرائیل امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر غزہ میں ایک عبوری انتظامیہ تشکیل دینے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے جو فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات ہونے تک غزہ کا انتظام چلائے گی۔
اس وقت حماس شاید اس پریشانی کا بھی شکار ہو کہ کہیں جنگ بندی کا پہلا فیز مکمل ہونے کے بعد اسرائیل کسی مستقل معاہدے سے انکار ہی نہ کر دے۔
اگر اسرائیلی وزیر اعظم حماس کے ساتھ کسی امن عمل کے لیے راضی بھی ہو جاتے ہیں تب بھی ہو سکتا ہے کہ شاید وہ اپنی کابینہ کو اس بات پر راضی نہ کر سکیں۔
اسرائیلی وزیرِ خزانہ بتسلئيل سموتريش اور قومی سلامتی کے وزیر إيتمار بن غفير ایسے کسی بھی معاہدے کے مخالف ہیں۔
سموتریش نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ایسا کوئی بھی معاہدہ اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے ’قیامت خیز‘ ثابت ہوگا اور وہ اس کی حمایت نہیں کریں گے۔
حماس کو مبینہ طور پر خدشہ ہے کہ اسرائیلی حکومت ان یرغمالیوں کی واپسی کے بعد ایک مرتبہ پھر سے غزہ پر حملے شروع کر سکتا ہے جنھیں امن منصوبے کے پہلے مرحلے کے دوران واپس لایا جانا ہے۔
دیگر تفصیلات بھی ہیں جو اس معاہدے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔
اسرائیل تمام یرغمالیوں کی واپسی چاہتا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ کون سے یرغمالی زندہ ہیں یا مر چکے ہیں اور ممکن ہے کہ حماس کے پاس ان میں سے کچھ کا سراغ تک نہ ہو۔
اسرائیل ان قیدیوں کو رہا کرنے سے بھی انکار کر رہا ہے جنھیں حماس رہا کروانا چاہتی ہے۔ ان میں مبینہ طور پر وہ لوگ بھی شامل ہیں جو 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث تھے۔
اور یہ معلوم نہیں ہے کہ اسرائیل غزہ کی سرحدوں پر مجوزہ بفر زون سے اپنے فوجیوں کو کب نکالے گا یا انھیں مستقل طور پر وہاں رکھے گا۔
امریکی یرغمالیوں کے اہلخانہ نے جنگ بندی معاہدے پر بائیڈن اور ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا ہے
غزہ میں یرغمال بنائے گئے امریکی شہریوں کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ ’انتہائی شکر گزار‘ ہیں کہ معائدے کے نتیجے میں ’اُن کے پیارے وطن واپس آرہے ہیں‘۔
ایک بیان میں امریکی یرغمالیوں کے اہل خانہ نے صدر جو بائیڈن، نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیموں کی کوششوں پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل، مصر، قطر، امریکہ اور دیگر فریقین کے درمیان جاری رہنے والی کوششوں اور تعاون کے نتیجے میں آج معاملات یہاں تک پہنچے ہیں۔
انھوں نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ اس وقت تک جنگ بندی کے معاہدے پر قائم رہیں جب تک کہ تمام یرغمالی اپنے اپنے گھروں تک واپس نہیں پہنچ جاتے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں امید ہے کہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں تمام یرغمالی اپنے وطن واپس آئیں گے۔
غزہ میں جنگ جنوبی اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے بعد شروع ہوئی تھی۔ مسلح گروہ کے اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 شہریوں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
اس کے بعد اسرائیل نے حماس کو تباہ کرنے کے لیے غزہ پر حملہ کر دیا تھا۔
غزہ میں فلسطین کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق رواں مہینے کی 14 تاریخ تک غزہ میں 46 ہزار 640 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔