کرم میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی منظوری

واشنگٹن (ش ح ط) پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شورش زدہ قبائلی ضلع ‎کرم میں امن کی بحالی کے لئے کئی علاقوں میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر کرم محمد اشفاق کے مطابق تحصیل لوئر کرم کے علاقے بگن، مندوری، چھپری اور گردو نواح کے علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف ممکنہ آپریشن کا پلان تیار کر لیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر کے مطابق متاثرین کیلئے ٹل اور ہنگو میں ٹی ڈی پیز کیمپ قائم کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کردیا گیا، ٹی ڈی پیز کیمپ قائم کرنے کیلئے صوبائی ریلیف کو خط بھی ارسال کردیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق ٹل ڈگری کالج، ٹیکنیکل کالج، ریسکیو اور عدالت کی عمارت میں کیمپ قائم ہوں گے، دوران آپریشن آبادی کے تحفظ کیلئے کیمپ قائم کیے جا رہے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں ایک کمیٹی بھی قائم ہے۔

ادھر ہنگو کے ضلعی انتظامیہ نے ڈیلی اردو کو بتایا کہ کرم کے کشیدہ حالات کے پیش نظر نقل مکانی کرنے والوں کے لیے متاثرین کیمپس قائم کیے جاییں گے اور اس کے لیے گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ٹل، سابقہ ووکیشنل سینٹر ٹل اور گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول محمد خواجہ کے ساتھ ساتھ دوسرے مقامات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق ڈپٹی کمشنر ہنگو گوہر زمان وزیر کے ہمراہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہنگو سجاد حسین و اسسٹنٹ کمشنر دوآبہ نواب خان بنگش نے دستیاب خالی کلاس رومز کا جائزہ لیا ہے جو متاثرین کی عارضی رہائش کے لیے موزوں قرار دیے گئے ہیں۔

انتظامیہ کے مطابق ٹی ایم اے ٹل کو صفائی اور متعلقہ محکمہ جات کو بروقت ممکنہ سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

اس موقع پر ڈپٹی کمشنر ہنگو گوہر زمان وزیر نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ ہنگو ضلع کرم کے بے گھر اور متاثرہ خاندانوں کو تمام ممکنہ سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز لوئر کرم کے علاقے بگن میں کھانے پینے کا سامان لے جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر حملہ ہوا تھا جس میں دو اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے، حملے میں لاپتہ ہونے والوں میں سے پانچ شیعہ ڈرائیوروں سمیت 8 افراد کی لاشیں آج اڑاولی سے مل گئیں۔

ہلاک ہونے والوں میں ثاقب حسنین بھی شامل ہے جو بیرون ملک سے دس سال بعد اہلخانہ سے ملنے کیلئے ٹرک میں سوار ہوکر پاراچنار جا رہا تھا۔

پولیس کے مطابق اپر کرم کے علاقے اڑوالی سے 8 افراد کی بوری بند لاشیں برآمد کرلی گئیں۔ مقامی اور پولیس ذرائع کے مطابق شدت پسندوں نے مقامی افراد کے ساتھ مل کر شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تمام افراد پر انسانیت سوز ظلم کرتے ہوئے اس کے جسم میں کیلیں ٹھونک دی گئی تھی۔

پولیس حکام کے مطابق بند بوری میں شیعہ ڈرائیوروں کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور انہیں شدید تشدد کے بعد سینوں اور سر پر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔

اس واقعہ کے بعد ضلع کرم میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے، جبکہ سیکیورٹی فورسز نے پوزیشن سنبھال لی، اس کے ساتھ ہی علاقے میں سیکیورٹی فورسز کا گشت شروع کر دیا گیا ہے.

لوئر کرم کے ایک ڈاکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر واشنگٹن کے آن لائن اخبار ڈیلی اردو کو بتایا کہ تمام افراد کے ہاتھوں کو سیموں سے باندھا گیا تھا اور پھر گلے میں کیلیں ٹھونک کر زبانیں کاٹی گئیں۔

طبی اور مقامی ذرائع کے مطابق دو افراد کے بہتتر ٹکڑے کیے گئے تھے۔

پولیس اور سرکاری ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 2 سیکیورٹی اہلکار اور 4 ڈرائیورز سمیت 4 عام شہری شامل ہیں۔

پولیس کے مطابق یہ لاشیں لاپتا ڈرائیوروں اور دیگر افراد کی ہیں، جو گذشتہ روز بگن میں امدادی سامان لے جانے والے ٹرکوں کے قافلے پر حملے کے بعد اغوا یا لاپتا ہو گئے تھے۔

پولیس کے مطابق جمعرات کو شدت پسندوں اور مقامی افراد نے گھات لگا کر 33 گاڑیوں کے قافلے کو نشانہ بنایا تھا۔ ٹرکوں پر مشتمل قافلے میں مقامی تاجروں کو چاول، آٹا، کھانا، کوکنگ آئل، ادویات، پھل اور سبزیوں سمیت دیگر اشیائے ضروریہ پہنچائی جا رہی تھیں۔

شدت پسندوں اور مقامی افراد نے جمعرات کو پولیس، فرنٹیئر کور (ایف سی)، فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے حصار کے باوجود ٹل ہنگو سے پارا چنار اور دیگر علاقوں کی طرف جانے والے ٹرکوں کے قافلے پر فائرنگ کی تھی۔ جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

سرکاری ذرائع نے دعوی کیا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 6 دہشت گرد مارے گئے اور 10 زخمی ہو گئے۔

ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لوئر کرم ڈاکٹر رحیم گل نے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جمعے کی صبح پانچ افراد کی لاشیں علیزئی ہسپتال لائی گئیں جنہیں تشدد کرکے ہلاک کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر رحیم کے مطابق ان میں سے تین کی شناخت عمران علی، حسن علی اور شاہد علی کے نام سے ہوئی ہے جبکہ دو لاشوں کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔

ہلاک ہونے والے افراد ٹرک ڈرائیور تھے جن کے بارے میں کل سے اطلاع تھی کہ کچھ ڈرائیور لاپتا ہیں۔ ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق پاراچنار سے ہے۔

‎ڈاکٹر رحیم گل کے مطابق گذشتہ روز بگن میں امدادی قافلے پر فائرنگ کے نتیجے میں بنیادی مرکز صحت مندوری میں 11 افراد کو لایا گیا جن میں سے دو افراد ہلاک ہو چکے تھے جبکہ نو افراد زخمی تھے۔ تمام افراد کو گولیاں لگی تھی۔

لوئر کرم کے ایک سینیئر پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ روز کے واقعے میں کل 12 ٹرک بگن کی حدود میں داخل ہوئے جن پر حملہ کیا گیا جس کے بعد 10 ٹرکوں کو نذرآتش کر دیا گیا جبکہ دو ٹرکوں کو لوٹا گیا۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی مختلف ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ ٹرکوں کو آگ لگانے کے بعد ان میں موجود سامان کو لوٹا جارہا ہے۔

پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ ہمارے اہلکار اپنے اپنے علاقوں میں محصور ہیں اور ابھی تک متاثرہ علاقے تک رسائی حاصل نہیں کی جا سکی ہے۔ اصل صورتحال متاثرہ علاقے میں پہنچنے کے بعد ہی معلوم ہوسکے گی۔

اس واقعہ کے بعد ضلع کرم میں بنکرز مسمار کرنے کا آپریشن وقتی طور پر معطل کر دی گیا ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق گزشتہ روز دو بنکرز میں بارودی مواد نصب کر دیا گیا تھا اور 10 بنکروں کو مسمار کیا جانا تھا، تاہم کرم کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس سے ہاتھ کھینچ لیا گیا۔

ذرائع کے مطابق امدادی اشیاء کا سامان ٹل کینٹ میں موجود ہے جس کی کلیئرنس نہ ہو سکی ہے۔ دوسری طرف ضلعی انتظامیہ اور حکومت معاملات کو کنٹرول کرنے کیلئے کرم میں موجود ہے۔

گذشتہ روز واقعے کے بعد انجمن حسینیہ کے سیکرٹری جنرل جلال بنگش نے حکومت کو تین دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملوث افراد کے خلاف کارروائی نہ کی گئی اور سڑک کو نہ کھولا گیا تو ہم امن معاہدے سے دستبردار ہو جائیں گے پھر تمام حالات کی ذمہ داری حکومت ہر عائد ہو گی۔

قبائلی ضلع کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی تو گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ تاہم21 نومبر 2024 کو شیعہ مسافر گاڑیوں کے قافلے پر بگن کے مقام پر حملے میں 45سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جس کے بعد مشتعل افراد نے بگن سمیت کرم کے سُنّی علاقوں میں بازاروں اور گھروں کو آگ لگا دی تھی۔

حکام کے مطابق کُرم میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں 200 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔

ان پُرتشدد واقعات کے بعد علاقے میں صورتِ حال مزید خراب ہو گئی تھی اور راستوں کی بندش سے کرم میں اشیائے خورونوش اور ادویات کی قلت ہے۔

دوسری جانب کرم سے مریضوں کی منتقلی کیلئے ہیلی کاپٹر سروس گزشتہ 11 روز سے بند ہے اور مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ہسپتال سے مریضوں کو پشاور منتقل کرنے میں ناکام ہیں۔

مقامی افراد کے مطابق ہسپتالوں اور کلینک ضروری ادویات سے محروم ہیں۔ مریضوں کا علاج ممکن نہیں ہو رہا اور پیچیدہ بیماریوں کیلئے پشاور جانے کا راستہ بند ہونے سے جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ مقامی صحافیوں کے مطابق پاراچنار میں علاج و سہولیات نہ ملنے سے دم توڑنے والے بچوں کی تعداد 120 سے زائد ہوگئی ہے۔

ادھر پاراچنار کے شہریوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے اور گندم، چاول اور دیگر بنیادی اشیا کی فراہمی بند ہونے سے دکانوں میں ذخیرہ ختم ہو چکا ہے۔ اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور غریب عوام بنیادی خوراک سے محروم ہو رہے ہیں۔

یاد رہے کہ کئی ماہ سے خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں حالات مسلسل کشیدہ ہیں اور گزشتہ روز سے مقامی انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز نے مخالف گروہوں کے کئی بنکرز مسمار کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔

چند روز قبل کوہاٹ میں لگ بھگ ایک ڈیڑھ ماہ تک جاری رہنے والے گرینڈ جرگے نے امن معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ فریقین کی جانب سے 45، 45 افراد نے امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ لیکن اس واقعے نے امن معاہدے پر بھی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔

ضلع کرم حالیہ برسوں سے شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں کی لپیٹ میں رہا ہے. لیکن پھچلے سال نومبر میں تشدد میں اضافہ تب ہوا جب حملہ آوروں نے شیعہ مسلمانوں کو لے جانے والی گاڑیوں پر فائرنگ کی، جس میں 52 افراد ہلاک ہوئے۔ تب سے لے کر اب تک اس تشدد میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کیلئے جنگ بندی کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں۔ فریقین ایک دوسرے کے خلاف مشین گنوں اور بھاری ہتھیاروں کا استمعال کر رہے ہیں۔

قومی سطح پر سنی مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان کے شورش زدہ شمال مغربی صوبے میں صوبے خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے میں شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی آباد ہے۔ اسی وجہ سے کرم میں گزشتہ عشروں کے دوران بار بار فرقہ وارانہ تصادم دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ وہاں بدامنی اور ہلاکتوں کی تازہ ترین لہر بھی اسی کشیدگی کا تسلسل ہے۔ ضلع کرم کا رابطہ فی الحال بیرونی دنیا سے منقطع ہوچکا ہے۔

نوٹ

اس رپورٹ میں شامل کچھ مواد خبر رساں اداروں اے ایف پی اور بی بی سی سے لیا گیا ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں