واشنگٹن (ش ح ط) پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواکے شورش زدہ قبائلی ضلع کرم کے نواحی گاؤں بالشخیل میں شدت پسندوں کے حملے میں شیعہ نوجوان سید وسیم ہلاک ہوگئے۔
سرکاری اور مقامی ذرائع کے مطابق وسیم عباس کو خارکلے سے اسنائپر گن سے نشانہ بنایا گیا۔ وسیم عباس کو تشویشناک حالت میں ڈی ایچ کیو ہسپتال پاراچنار منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
گزشتہ ہفتے بھی اسے علاقے میں پولیس کی بکتر بند گاڑی پر فائرنگ ہوئی تھی تاہم کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا۔
بالشخیل، لوئر کرم میں تحصیل صدہ کے قریب واقع ہیں۔ بالیش خیل اہل تشیع اور خار کلی اہل سنت کے علاقے ہیں۔
بروقت علاج نہ ملنے سے دو نومولود بچے ہلاک
ادھر پاراچنار میں ایندھن کی عدم دستیابی اور علاقے میں کشیدگی کے باعث ایمرجنسی کی صورت میں ہسپتال تک نہ پہنچ پانے کے باعث مزید دو بچے دم توڑ گئے۔
مقامی ذرائع کے مطابق پاراچنار کے نواحی گاؤں لقمانخیل میں پٹرول اور ڈیزل کی شدید قلت کے باعث ایک خاتون نے جڑواں بچوں کو جنم دیا لیکن بچوں کی طبعیت اچانک بگڑ گئی۔
ذرائع نے ڈیلی اردو کو بتایا کہ ایندھن کے باعث یہ بچے بروقت پاراچنار کے ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں نہ پہنچ پانے کے باعث دم توڑ گئے۔
بچوں کے والد نے بتایا کہ بچوں کی پیدائش کے چند گھنٹے بعد ایک بچہ دم توڑ گیا تھا۔ اس کے چند گھنٹوں بعد ایک ہی رات میں دونوں بچے چل بسا۔
بچوں کے والد نے مزید بتایا کہ بچوں کے ہلاکت کے بعد اس کی ماں شدید صدمے سے دوچار ہے اور بچوں کےغم میں اس کا برا حال ہے۔
پارا چنار شہر میں اشیائے ضروریہ کا شدید فقدان ہے، اشیائے خورد و نوش، ادویات، ایندھن سمیت مختلف چیزوں کا ذخیرہ ختم ہوگیا ہے۔ہسپتال ذرائع کے مطابق سہولت اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث ہسپتالوں میں اموات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
تحصیل چیئرمین اپرکرم آغا مزمل کا کہنا ہے کہ راستوں کی بندش کے باعث شہری خوراک و علاج سے محروم ہیں، علاج کی سہولیات نہ ملنے سے 120 سے زائد بچے دم توڑ چکے ہیں۔انہوں نے کہا خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے دی جانے والی ادویات مکمل ختم ہوچکی ہیں.
پاراچنار کے مقامی شہری اقرار حسین طوری نے ڈیلی اردو کو بتایا کہ راستوں کی طویل بندش کی وجہ سے پاراچنار میں انسانی المیہ نے جنم لے لیا ہے، اشیائے خوردونوش، میڈیسین، فیول، لکڑی ہر چیز کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔ شہری ایک ایک چیز کے پیچھے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں لیکن نمک تک نہیں حاصل کر پارہے۔
دوسری جانب کرم سے مریضوں کی منتقلی کیلئے ہیلی کاپٹر سروس گزشتہ 12 روز سے بند ہے اور مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق ہسپتالوں اور کلینک ضروری ادویات سے محروم ہیں۔ مریضوں کا علاج ممکن نہیں ہو رہا اور پیچیدہ بیماریوں کیلئے پشاور جانے کا راستہ بند ہونے سے جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز لوئر کرم کے علاقے بگن میں کھانے پینے کا سامان لے جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر حملہ ہوا تھا جس میں دو اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے، حملے میں لاپتہ ہونے والوں میں سے پانچ شیعہ ڈرائیوروں سمیت 8 افراد کی لاشیں بروز جمعہ کو اڑاولی کے علاقے سے مل گئیں۔
مقامی اور پولیس ذرائع کے مطابق شدت پسندوں نے مقامی افراد کے ساتھ مل کر شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تمام افراد پر انسانیت سوز ظلم کرتے ہوئے اس کے جسم میں کیلیں ٹھونک دی گئی تھی۔
پولیس حکام کے مطابق بند بوری میں شیعہ ڈرائیوروں کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور انہیں شدید تشدد کے بعد سینوں اور سر پر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔
اس واقعہ کے بعد ضلع کرم میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے، جبکہ سیکیورٹی فورسز نے پوزیشن سنبھال لی، اس کے ساتھ ہی علاقے میں سیکیورٹی فورسز کا گشت شروع کر دیا گیا ہے۔
لوئر کرم کے ایک ڈاکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر واشنگٹن کے آن لائن اخبار ڈیلی اردو کو بتایا کہ تمام افراد کے ہاتھوں کو سیموں سے باندھا گیا تھا اور پھر گلے میں کیلیں ٹھونک کر زبانیں کاٹی گئیں۔
طبی اور مقامی ذرائع کے مطابق دو افراد کے 72 ٹکڑے کیے گئے تھے۔
پولیس اور سرکاری ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 2 سیکیورٹی اہلکار اور 4 ڈرائیورز سمیت 4 عام شہری شامل ہیں۔
پولیس کے مطابق یہ لاشیں لاپتا ڈرائیوروں اور دیگر افراد کی ہیں، جو گذشتہ روز بگن میں امدادی سامان لے جانے والے ٹرکوں کے قافلے پر حملے کے بعد اغوا یا لاپتا ہو گئے تھے۔
پولیس کے مطابق جمعرات کو شدت پسندوں اور مقامی افراد نے گھات لگا کر 33 گاڑیوں کے قافلے کو نشانہ بنایا تھا۔ ٹرکوں پر مشتمل قافلے میں مقامی تاجروں کو چاول، آٹا، کھانا، کوکنگ آئل، ادویات، پھل اور سبزیوں سمیت دیگر اشیائے ضروریہ پہنچائی جا رہی تھیں۔
قبائلی ضلع کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی تو گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ تاہم21 نومبر 2024 کو شیعہ مسافر گاڑیوں کے قافلے پر بگن کے مقام پر حملے میں 45سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جس کے بعد مشتعل افراد نے بگن سمیت کرم کے سُنّی علاقوں میں بازاروں اور گھروں کو آگ لگا دی تھی۔
حکام کے مطابق کُرم میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں 200 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں جبکہ کشیدہ حالات کے باعث گزشتہ تین ماہ سے ضلع کے تمام چھوٹے بڑے راستے بند ہیں۔