واشنگٹن (ڈیلی اردو رپورٹ) پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں احمدیوں کی تاریخی عبادت گاہ کو مسمار کردیا گیا۔
ڈسکہ میں مقامی انتظامیہ نے ملک کے پہلے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان کی جانب سے تعمیر کرائی گئی تاریخی عبادت گاہ کو تجاوزات قرار دیتے ہوئے مسمار کر دیا۔
ملک کے معروف میڈیا ادارے ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق انہدامی کارروائی 16 جنوری کو کی گئی تھی، اس سے 2 روز قبل پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت نوٹس جاری کیے گئے تھے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس ڈھانچے کی توسیع غیر قانونی ہے کیونکہ اسے ایک عوامی سڑک پر 13 فٹ جگہ پر قبضہ کرکے تعمیر کیا گیا ہے۔
احمدی مذہب سے تعلق رکھنے والے ظفر اللہ خان 1947 سے 1954 تک پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ رہے، وہ نو آبادیاتی ہندوستان کے ایک ممتاز وکیل اور تاریخی فیصلوں میں احمدی نظریے کے ایک اہم وکیل تھے، ظفر اللہ خان نے سیالکوٹ کے علاقے ڈسکہ میں جو عبادت گاہ تعمیر کی تھی وہ 1947 میں پاکستان کی آزادی سے قبل کی تھی۔
احمدیہ کمیونٹی کے ارکان کے مطابق 15 جنوری کو نشان زدہ 13 فٹ کو ہٹا کر نوٹس پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے باوجود ڈسکہ کی اسسٹنٹ کمشنر ماہم مشتاق نے پولیس کے ساتھ مل کر اس شام عبادت گاہ کو مسمار کرنے کا کام شروع کردیا، آپریشن شام 7 بجے سے رات 11 بجے تک جاری رہا جس کے دوران عبادت گاہ اور آس پاس کے علاقوں کی بجلی بھی منقطع کردی گئی۔
کمیونٹی کے ارکان نے بے چینی اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ریاستی ادارے کمزور گروہوں کو انتہا پسند عناصر سے بچانے کے بجائے ان کی عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ میں ملوث ہیں۔
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود نے الزام عائد کیا کہ مقامی انتظامیہ مسلسل کمیونٹی کی املاک کو نشانہ بنا رہی ہے اور ان کی شکایات کو نظر انداز کر رہی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے قیام سے قبل ظفر اللہ خان کے خاندان کی جانب سے تعمیر کردہ ڈھانچہ اب تک اصل حالت میں بحال تھا اور اس میں کوئی تبدیلی یا توسیع نہیں کی گئی تھی۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ اور مستقبل میں اس طرح کی کارروائیوں کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کرے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدامات مجرمانہ ہیں اور ان سے قانون کے مطابق نمٹا جانا چاہیے۔
سول سوسائٹی کے گروپوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف مذہبی رہنماؤں نے احمدیہ برادری کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور ان کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔
50 برس سے بھڑکتی آگ
احمدی برادری کے خلاف اگرچہ مذہبی منافرت کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری تھا تاہم اس میں شدت آج سے لگ بھگ 51 برس قبل یعنی سات ستمبر 1974 کو اس وقت آئی جب پاکستان کی پارلیمان نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔
ستمبر 1974 میں ہونے والی اس آئینی ترمیم کے بعد اُس وقت کے وزير اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک جلسے میں انتہائی پُرجوش تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دیکھ لیں! آپ کے سامنے ہمارے کارنامے ہیں۔ آپ کے سامنے ہماری کوششیں ہیں۔۔۔ آپ دیکھ لیں کہ احمدیوں کا مسئلہ اس دور میں 90 سال سے تھا، اِسی دور میں اس کے حل کا آخری فیصلہ بھی قومی اسمبلی نے کیا ہے۔‘
سابق وزیراعظم جن کوششوں کا ذکر کر رہے تھے ان کے بارے میں مبصرین کا دعویٰ تھا کہ اِنھی کوششوں نے پاکستان کو ایک ایسے راستے پر ڈالا جس نے اگلے پچاس سال میں احمدی کمیونٹی پر پاکستان کی سرزمین تنگ کر دی۔
ستمبر 1974 میں ہونے والی اس آئینی ترمیم کے لگ بھگ 10 سال بعد پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے دور میں ریاست اس ضمن میں ایک قدم مزید آگے بڑھی اور 1984 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے احمدیوں کے خلاف ایسے قوانین بنے جن کے بارے میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے احمدیوں کے لیے اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنا مشکل تر ہو گیا اور انھیں مختلف مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس آرڈیننس کے تحت جماعت احمدیہ کا کوئی رکن خود کو مسلمان ظاہر کرے، اپنی عبادت گاہوں کے لیے کوئی اسلامی اصطلاح استعمال کرے، ’اسلام وعلیکم‘ کہے یا ’بسم اللہ‘ پڑھے، اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہے یا وہاں اذان دے تو اسے تین برس قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان قوانین کے تحت بطور احمدی اپنے عقائد پر عمل کرنا جرم قرار دے دیا گیا تاہم دوسری جانب پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق کسی شخص کو مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر نشانہ بنانا بھی قانوناً ایک جرم ہے۔
ستمبر 1974 میں ہونے والی دوسری آئینی ترمیم کے پچاس برس بعد اب صورتحال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر آئے روز ایسی ویڈیوز اور کلپس نظر آتے ہیں جن میں احمدی برداری کے خلاف نہ صرف اشتعال انگیز بیان جاری کیے جاتے ہیں بلکہ اس اقلیتی برادری کو ’واجب القتل‘ قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
سوشل میڈیا اور ٹی وی پر مذہبی منافرت کے بیانات
یہ معاملہ صرف سیاسی یا مذہبی جلسے جلوسوں تک محدود نہیں بلکہ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بھی اس نوعیت کے بیانات جاری کیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں احمدیوں کی جانیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔
بی بی سی اردو کی ٹیم نے اسی طرح کے ویڈیوز کو اکٹھا کیا جو ملک میں کُھلے عام سوشل میڈیا اور واٹس ایپ وغیرہ پر شیئر کی جا رہی ہیں۔
ان ویڈیوز کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ماہر قانون یاسر لطیف ہمدانی کو دکھایا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ صریحاً قانون کی خلاف ورزی ہیں۔ یہ پیکا ایکٹ (یعنی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016) کی خلاف ورزی ہیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کے بیانات اور اشتعال انگیزی ’پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 153 اے، اور 295 اے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ آپ کسی اقلیتی برادری کو اُن کے مذہبی عقائد کی وجہ سے نشانہ بنا رہے ہیں اور یہ قابلِ گرفت جرم بھی ہے۔‘
لیکن ان ویڈیوز میں بیان دیتی شخصیات یا انھیں سوشل میڈیا پر پھیلانے والے افراد کے خلاف عموماً کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کیا بتاتی ہے؟
سن 2024 میں حکومت کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی آر ایچ) نے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا ’مانیٹرنگ دی پلائیٹ آف دی احمدیہ کمیونٹی۔‘
یہ ایک سرکاری رپورٹ ہے جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ احمدیوں کو نشانہ بنانے والی نفرت انگیز تقاریر اور بیانات کے خلاف کارروائی کرے۔
پاکستان میں احمدی برادری اور اُن کو درپیش مسائل، تعصب اور تشدد کے بارے میں انسانی حقوق پر کام کرنے والے ادارے ماضی میں بھی بات کرتے رہے ہیں، لیکن پہلی بار ایک سرکاری رپورٹ میں اِس تعصب اور مسائل کا اعتراف کیا گیا ہے۔
سنہ 2024 کے اوائل میں پنجاب کے علاقے حاصل پور میں ایک احمدی شخص برہان احمد (اصل نام ظاہر نہیں کیا گیا) پر حملہ بھی اسی نوعیت کی اشتعال انگیزی کی ایک مثال ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے مطابق اس واقعے میں دو نامعلوم حملہ آوروں نے احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق مقامی ڈِسٹرکٹ پولیس آفیسر نے اُنھیں (کمیشن کو) بتایا کہ مقامی مسجد میں ایک اشتعال انگیز تقریر کے بعد دو نوجوان لڑکوں نے احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا قتل کیا اور بعدازاں اپنے مبینہ اعترافی بیان میں کہا کہ ’انھوں نے ایسا ایک مذہبی شخصیت کی جانب سے دیے گئے فتوے کی بنیاد پر اور جنت جانے کے لیے کیا۔‘
ایچ آر سی پی کے ہی فیکٹ فائنڈِنگ مشن کے مطابق اِس حملے سے پہلے احمدی برادری نے پولیس سے اِس اشتعال انگیزی کے بارے میں شکایت کی تھی لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
اس واقعے کے بعد مقتول کے گھر والوں کو اپنی جان کو لاحق خطرے کے مدنظر اپنی زمینیں چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا۔
پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق اس شخص کا قتل صبح ساڑھے چھ بجے ہوا تھا لیکن مقتول کی اہلیہ امتہ الباری (فرضی نام) نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس دن بارہ بجے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچی تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی ٹیم کو صورتحال بتاتے ہوئے امتہ الباری آبدیدہ ہو گئیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اپنے بیٹے کے ہمراہ ’جب میں نے جا کر دیکھا تو میرے شوہر مردہ حالت میں پڑے تھے، وہاں کافی لوگ جمع تھے۔‘
امتہ الباری کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھ سے وہ منظر برداشت ہی نہیں ہوا، آپ سوچیں کہ اُس وقت کیا احساس ہو گا جب ایک بچے کے سامنے اس کا باپ مردہ حالت میں گھنٹوں زمین پر پڑا ہو۔‘
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے مقتول کے ورثا کو مبینہ طور پر مشورہ دیا کہ وہ ان کے قتل کو عقیدے کی بنیاد پر تشدد کا واقعہ قرار نہ دیں۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
این سی ایچ آر کی رپورٹ واضح الفاظ میں کہتی ہے کہ احمدی برادری کے خلاف مذہبی تعصب اور اُن کی جان اور اُن کے مال کو لاحق خطرات ایک فوری حل طلب مسئلہ ہیں جس کے بارے میں حکومت کو فوری کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق سنہ 1984 سے اب تک احمدی برادری کے 280 افراد صرف مذہبی عقیدے کی وجہ سے قتل کیے جا چکے ہیں اور 415 دیگر افراد اپنے عقیدے کی وجہ سے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔
احمدی برادری اگر زندہ ہوتے ہوئے محفوظ نہیں تو مرنے کے بعد بھی اُنھیں وہ حفاظت نہیں ملتی جو کہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق جنوری 2023 سے ستمبر 2023 تک کے اعداد و شمار (نو ماہ) کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ کافی پریشان کن ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 39 معاملات میں تدفین کے بعد احمدی برادری کے افراد کی لاشیں کو قبروں سے نکال لیا گیا، 99 معاملات میں قبروں کی بےحرمتی کی گئی اور 96 کیسز میں احمدی برادری کے افراد کو مشترکہ قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں دی گئی۔
جہاں آئے دن ہونے والے حملوں کی وجہ سے احمدیوں کی جانیں خطرے میں وہیں اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں پر حملوں میں بھی پچھلے کچھ عرصے میں شدت آئی۔
کچھ ہی عرصہ پہلے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مقامی افراد کے ایک ہجوم نے احمدی برادری کی عبادت گاہ پر حملہ کیا اور مردوں اور عورتوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ اِس علاقے میں اِس حملے سے پہلے احمدی برادری کے ساتھ تناؤ میں اضافہ ہو رہا تھا۔
احمدی برادری کے عہدیداران نے بی بی سی کو بتایا کہ حملے سے پہلے اُنھیں ڈرایا گیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں تھی، لیکن پولیس کی توجہ اس جانب دلوانے کے باوجود اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
وہ علاقہ جہاں احمدی برادری سے کوئی مسئلہ نہیں
لیکن پاکستان میں ایسے بھی علاقے ہیں جہاں احمدی برادری اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور سکون سے رہتی ہیں اور جہاں مقامی آبادی کو احمدی برادری اور اُن کی عبادتگاہوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود ان عبادت گاہوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔
پنجاب کا شہر شیخوپورہ ایک ایسا ہی علاقہ ہے۔ جب ملک کے دیگر شہروں سے احمدی برادری کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کی خبریں آنے لگیں تو یہاں کی مقامی آبادی نے سامنے آ کر یہ بات واضح کر دی کہ اُنھیں دراصل کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
بی بی سی اردو نے وہاں کی مقامی برادری سے ایک دستاویز حاصل کی ہے جس پر اس علاقے کے مذہبی اور مقامی رہنماؤں نے دستخط کر کے اِس بات کو واضح کیا تھا کہ اُنھیں علاقے میں رہنے والی احمدی برادری یا اُن کی عبادت گاہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
بی بی سی اردو نے اِس دستاویز پر دستخط کرنے والے ایک شخص سے رابطہ کیا جنھوں نے بتایا کہ اس سٹامپ پیپر پر دستخط کرنے کے بعد اُنھیں اور دوسرے دستخط کنندگان کو شدت پسندوں کی طرف سے دھمکیوں اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اسی علاقے کے ایک اور شخص نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم تو بھائیوں کی طرح رہتے ہیں۔ ہمارے تعلقات ٹھیک چل رہے ہیں۔‘
گو کہ اس کیس میں مقامی آبادی کو کوئی مسئلہ نہیں تھا، مگر بعض انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ بعض اوقات خود ریاستی ادارے احمدی کمیونٹی کے خلاف متعصب کارروائیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
اوراس کیس میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا جب مبینہ طور پر انتہا پسند مذہبی گروہ کے دباؤ میں آ کر مقامی پولیس نے کارروائی کی اور یہاں احمدیوں کی عبادت گاہ کے کچھ حصوں کو منہدم کیا۔
حال ہی میں احمدی برادری پر تشدد، ان کے خلاف اشتعال انگیز بیانات اور پولیس پر دباؤ کے واقعات میں مختلف مذہبی گروہوں کے ساتھ ساتھ مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو بھی الزامات کا سامنا ہے۔
بی بی سی اردو نے ٹی ایل پی سے رابطہ کر کے ان سے ان الزامات کے بارے میں موقف جاننے کی کوشش کی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تحریک لبیک پاکستان کے سینٹرل ڈپٹی جنرل سیکریٹری مفتی عمیر الاظہری کا کہنا تھا کہ ’تحریک لبیک پاکستان جو بھی اقدامات کرتی ہے وہ قانون کے مطابق کرتی ہے۔ احمدی برادری کی جو بھی عبادت گاہیں ہیں انھیں مسلمانوں کی طرز پر بنانا، مسجدوں کی طرز پر ان کے مینار بنانا، اُس کا نام مسجد رکھنا قانونی طور پر ممنوع ہے۔ شعائر اسلام اور قانونی و آئینی اعتبار سے وہ اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اس طرح کی عبادت گاہیں نہیں بنا سکتے۔‘
مفتی عمیر کا احمدیوں کی عبادت گاہوں کے بارے میں الزام تھا کہ ’جب بھی وہ غیر قانونی اقدامات کرتے ہیں تو تحریک بیک پاکستان کے ذمہ داران، کارکنان، خاص افراد اور عہدیداران ہمیشہ قانونی قدم اُٹھاتے ہیں، غیر قانونی نہیں۔‘
بی بی سی اردو نے تحریک لبیک پاکستان کے اس دعویٰ پر کہ وہ قانونی راہ اختیار کرتے ہیں، تنظیم کے رہنماؤں کے سوشل میڈیا اور جلسوں میں اشتعال انگیز بیانات اور دیگر کارروائیوں کا جو پاکستان کے آئین اور قانون کی رو سے غیر قانونی ہوسکتی ہیں، کا تحریک لبیک کے مؤقف کے ساتھ تضاد کا ذکر کیا تو مفتی عمیر الاظہری کا کہنا تھا کہ ’ سیاق و سباق سے ہٹ کر اگر کوئی بات بیان کی جائے گی اور اگر اُس کی بنیادی چیزیں ہیں اُن کو مد نظر نہیں رکھیں گے تو آپ کا تحریک لبیک پاکستان کے ذمہ داران کے بارے میں یہی مؤقف ہو گا جو آپ کا ہے۔‘
احمدی عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ
انسانی حقوق کے سرکاری ادارے این سی ایچ آر کی رپورٹ میں صرف جنوری 2023 سے ستمبر 2023 کے جو اعداد و شمار درج ہیں وہ پریشان کن تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس سرکاری رپورٹ کے مطابق احمدی عبادگاہوں کو نقصان پہنچانے کے متعدد واقعات میں پولیس شامل ہوئی یا موقع پر موجود رہی۔
بعض مذہبی گروہوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق احمدی اپنی عبادت گاہیں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی طرز پر نہیں رکھ سکتے اور اسی بنا پر پچھلے کچھ سالوں میں متعدد احمدی عبادت گاہوں کے بعض حصوں کو منہدم کیا گیا ہے۔
تاہم قانونی ماہرین اس بارے میں ایک عدالتی فیصلے کو اگنور کرنے کی طرف توجہ دلواتے ہیں جس میں لاہور ہائی کورٹ کا اس ضمن میں ایک فیصلہ واضح ہے جو کہتا ہے کہ یہ قانون 1984 سے پہلے تعمیر ہونے والی احمدی عبادت گاہوں پر لاگو نہیں ہوتا۔
بی بی سی اردو نے شیخوپورہ کی جس احمدی عبادت گاہ کا دورہ کیا وہ 1962-63 میں تعمیر کی گئی تھی اور لاہور ہائی کے فیصلے کے تناظر میں اُس پر بھی وہ قانون لاگو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ شیخوپورہ میں بسنے والے ایک مقامی احمدی نے بتایا کہ احمدی برادری نے ’پولیس کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بارے میں بھی بتایا تھا۔‘
بی بی سی اردو نے احمدی کمیونٹی کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو روکنے میں ناکامی اور بعض صورتوں میں ان میں شامل رہنے کے الزامات کے بارے میں پنجاب پولیس کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن اب تک پنجاب پولیس کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
ماہر قانون یاسر لطف ہمدانی کے مطابق عبادت گاہوں کے خلاف پولیس کی اس نوعیت کی کارروائیاں ’آئین شکنی بھی ہے اور قانون کی خلاف ورزی بھی ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ پاکستان میں ’پریسیڈنٹ (ماضی کی نظیر یا مثال) کے حساب سے چلتے ہیں اور لاہور ہائیکورٹ نے جو پریسیڈنٹ سیٹ کیا ہے اس کے تحت جو احمدی عبادت گاہیں 1984 سے پہلے کی تعمیر شدہ ہیں اُن پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔‘
احمدی عبادت گاہوں کے مینار گرانے اور انھیں نقصان پہنچانے کے معاملے میں پولیس کے ملوث ہونے کے الزامات کے بارے میں یاسر لطیف ہمدانی کا کہنا تھا کہ وہ (پولیس) ان عبادت گاہوں کو ’منہدم نہیں کر سکتی۔‘ وہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ ’یہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ تھا اس لیے اگر اس کارروائی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جائے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ عدالت پولیس کی اس کارروائی کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے۔‘
بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین میں بات کرتے ہوئے صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن منیزے جہانگیر کا کہنا تھا کہ ’ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال وہ (احمدی) مزید ولنریبل (غیرمحفوظ) ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر دیکھیں تو پنجاب کے اندر نکاح نامے میں ایک شق ڈالی گئی ہے۔‘
منیزے جہانگیر کے مطابق یہ شق احمدیوں کے خلاف تعصب کی بنیاد پر ڈالی گئی تھی۔
منیزے جہانگیر کا پاکستا ن کی احمدی اقلیت کو تحفظ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’اگر آپ اُن (احمدی برداری) کے خلاف قوانین بنانا شروع کر دیں گے تو اُن کی حفاظت کرنا تو دور کی بات، آپ اُن کو مزید ولنریبل (غیرمحفوظ) کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اُن (احمدی برادری) کے لیے زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے اور اس میں ریاست کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔۔۔ اگر ریاست اپنا وزن اُن مذہبی گروہوں کے پیچھے ڈال دیتی ہے جو احمدیوں کو پراسیکیوٹ (استحصال) کرتی ہے تو ظاہر ہے احمدی کمیونٹی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھے گی۔‘
گہرا ہوتا تعصب
نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں احمدی برادری کے افراد کی جانیں، مال، عبادت گاہیں اور یہاں تک کہ اُن کی قبریں تک محفوظ نہیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق احمدیوں کے خلاف درج کیے جانے والے کیسز اور عدالتی کارروائیاں جن میں ایک، دو افراد نہیں بلکہ پوری کی پوری کمیونِٹیز اور پورے کے پورے علاقوں کے مکینوں کے خلاف کیسز کا اندراج قانونی سِسٹم میں موجود ایک ’سِسٹیمِک‘ یا ’انسٹیٹیوشنل‘ تعصب کی نشاندہی کرتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرنے والے مبصرین کے مطابق حکومت اور ریاست احمدی برادری کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو یا تو نظر انداز کر رہی ہے یا پھر (چند واقعات میں) اُن ناانصافیوں میں خود شامل ہو جاتی ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن اور صحافی منیزے جہانگیر کا کہنا ہے کہ ’اگر ریاست کا یہ مائنڈسیٹ ہے کہ وہ احمدی برادری کے خلاف تعصب یا انھیں نیچا دکھانے کے لیے قانون بنا رہی ہے تو پھر بہت مشکل ہے۔
’اگر حکومت اُن کو تحفظ دینا چاہتی ہے تو پھر اُن کا رویہ اور پالیسیز کچھ اور ہونی چاہییں۔ اور اگر وہ اُن کو تحفظ نہیں دینا چاہتے تو آج کا جو پاکستان ہے احمدیوں کے لیے وہی ہو گا۔‘
نوٹ: اس رپورٹ میں شامل کچھ مواد برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی سے لیا گیا ہے۔