واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ نے پناہ گزینوں کی دوبارہ امریکہ میں آبادکاری کو روک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اقدام سے سب سے پہلے افغان باشندے متاثر ہوں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس کا جواز یہ پیش کیا کہ تارکین وطن کو ملک میں آباد کرنے سے معاشرے کو درپیش مسائل اور وسائل پر بوجھ میں اضافہ ہو گا۔ ایک ہزار چھ سو ساٹھ ان افغانوں کی امریکہ آمد روک دی گئی ہے جنہیں امریکہ میں آباد ہونے کے لیے اجازت نامہ مل چکا تھا۔ اس فیصلے نے امریکہ میں پناہ گزینوں کے طور پر آباد ہونے کے منتظر ہزاروں افراد بشمول پاکستان میں عارضی طور پر مقیم افغان باشندوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق امریکی سابق فوجیوں اور ایڈوکیسی گروپوں کے اتحاد کے سربراہ شان وان ڈائیور اور ایک امریکی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ گروپ میں بچے بھی شامل ہیں جو امریکہ میں اپنے خاندانوں سے دوبارہ ملنے کے منتظر ہیں اور وہ افغان شہری بھی جنہیں طالبان سے انتقامی کارروائی کے خطرات لاحق ہیں، کیونکہ انہوں نے سابق امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کا ساتھ دیا تھا۔
وان ڈائیور کا کہنا تھا، ”یہ ان خاندانوں اور افراد کے لیے تباہ کن ہے جن کو امریکہ میں آبادکاری کے لیے پہلے ہی منظوری مل چکی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ منظوری مل جانے کے باوجود انہیں پاکستان یا افغانستان سے پروازیں نہیں مل رہی ہیں۔ متاثرین میں امریکی فوج میں فعال کردار ادا کرنے والے افغان اہلکاروں کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔
وان ڈائیور نے کہا کہ ان میں مہاجرین یا افغان والدین کے، تقریباً دو سو بچے بھی ہیں، جنہیں امریکی انخلا کے دوران اکیلے ہی امریکہ لے جایا گیا تھا۔
پناہ گزین پروگراموں کی نگرانی کرنے والے امریکی محکمے اور محکمہ خارجہ نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟
پرواز کی منسوخی ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کے نتیجے میں ہوئی ہے، جس میں کم از کم چار ماہ کے لیے امریکی پناہ گزینوں کے پروگراموں کو معطل کیا گیا ہے۔ یہ ٹرمپ کے دوسری مدت کے لیے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد انتظامیہ کی پہلی کارروائیوں میں سے ایک ہے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران امیگریشن پر کریک ڈاؤن کرنے کا بڑا وعدہ کیا تھا، جس سے امریکی پناہ گزین پروگراموں کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے۔
نئی وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ کے مطابق تارکین وطن کو ملک میں آباد کرنے سے کمیونٹی کو درپیش مسائل اور وسائل پر پڑنے والے بوجھ کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے پناہ گزینوں کی آبادکاری کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایڈووکیسی گروپوں کو خدشہ ہے کہ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اس فیصلے سے لوگوں کو طالبان کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
فیصلے کی نکتہ چینی
امریکی کانگریس کی فارن ریلیشنز کمیٹی میں اقلیتی ڈیموکریٹس نے سوشل میڈیا ایکس پر ایک پوسٹ میں اس فیصلے کی نکتہ چینی کی۔ بیان میں کہا گیا، ”تصدیق شدہ افغان اتحادیوں کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑنا شرمناک ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ”یہ فیصلہ امریکی قیادت پر عالمی اعتماد کو مجروح کرتا ہے اور مستقبل کے اتحاد کو خطرے میں ڈالتا ہے۔‘‘
خیال رہے اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد سے، بائیڈن انتظامیہ کے دور میں تقریباً 200,000 افغان باشندوں کو امریکہ لایا گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر کے طور پر اپنی پہلی مدت کے دوران، ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے تھے، جس میں چھ مسلم اکثریتی ممالک کے لوگوں کو ملک میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔ اس اقدام کے نتیجہ میں ہزاروں مہاجرین کینیا، تنزانیہ اور اردن کے کیمپوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔