کرم: کانوائے حملے کے دوران لاپتہ ہونے والے ٹرک ڈرائیور تنویر عباس کی تشدد زدہ لاش برآمد

واشنگٹن (ش ح ط) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کی تحصیل لوئر کرم سے ایک اور ڈرائیور کی تشدد زدہ لاش ملی ہے۔

پولیس حکام کے مطابق کانوائے کے روز لاپتا ہونے والے ٹرک ڈرائیور تنویر عباس کی لاش لوئر کرم کے علاقے سے مل گئی جس کے بعد حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 9 ہو گئی جن میں سیکیورٹی فورسز کے دو اہلکار بھی شامل ہیں۔

کرم میں طبی ذرائع کے مطابق فوجی کانوائے کے دوران لاپتہ ہونے والے ٹرک ڈرائیور تنویر عباس کی دونوں آنکھوں کو آہنی راڈ سے شدید زخمی کیا گیا تھا۔ جبکہ پولیس کے مطابق تنویر عباس پر شدید تشدد بعد سر میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ اور لاش اڑاولی سے ملی ہے، چند روز قبل دیگر ڈرائیوروں کی لاشیں بھی اڑاولی کے علاقے سے ملی تھیں۔ ٹرک ڈرائیور تنور عباس کا تعلق ضلع ہنگو سے ہے۔

تنویر عباس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اغواء کے بعد تنویر عباس کا متعدد بار ساتین کے علاقے سے رابطہ ہوا تھا۔ قبائلی رہنما حاجی عابد حسین نے کہا کہ آپریشن کے باوجود مغوی ڈرائیور کا قتل انتہائی سفاکانہ اقدام ہے۔

اس واقعہ کے بعد پولیس نے 8 افراد کی لاشیں لوئر کرم کے علاقے اڑاولی سے برآمد کی گئی تھی۔

پولیس ذرائع کے مطابق شدت پسندوں نے مقامی افراد کے ساتھ مل کر شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تمام افراد پر انسانیت سوز ظلم کرتے ہوئے اس کے جسم میں کیلیں ٹھونک دی گئی تھیں۔

پولیس حکام کے مطابق بند بوری میں شیعہ ڈرائیوروں کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور انہیں شدید تشدد کے بعد سینوں اور سر پر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔

یاد رہے کہ لوئر کرم کے علاقے بگن میں پارا چنار جانے والے گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا. 35 گاڑیوں پر مشتمل قافلہ پارا چنار کی جانب گامزن تھا۔ اسسٹنٹ کمشنر ہنگو سعید منان کا کہنا ہے کہ پارا چنار اور دیگر علاقوں کے لیے کانوائے ٹل سے روانہ ہوا تھا. حملے میں چھوٹے بڑے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تھا۔پولیس نے بتایا کہ 13 گاڑیاں جونہی بگن میں داخل ہوئیں۔ اسی وقت ان پر فائرنگ کی گئی۔ پانچ گاڑیاں فائرنگ کے زد میں آئیں جبکہ دو گاڑیوں کو آگ لگائی گئی۔ فائرنگ کے نتیجے میں تین سکیورٹی فورسز اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

اس سے قبل بگن میں ڈپٹی کمشنر کوہاٹ جاوید اللہ محسود کی گاڑی پر بھی بگن میں ہی فائرنگ کی گئی. جس کے نتیجے میں ڈی سی کوہاٹ، ایف سی اور پولیس اہلکاروں سمیت شدید زخمی ہوئے تھے۔ جاوید اللہ محسود پر فائرنگ کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ امدادی سامان کے قافلے کے لیے سڑکیں بحال کروانے گئے تھے۔

واضح رہے کہ 2024 کے آخری مہینوں میں کرم کے بگن میں شیعہ مسافر گاڑیوں پر فائرنگ سے 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے.جس کے بعد کرم کے مختلف علاقوں میں مسلح شیعہ قبائلی تصادم اور فائرنگ کے نتیجے میں مزید درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

شیعہ سنی فریقین کی جانب سے راستوں کی بندش اور احتجاج کی وجہ سے کرم میں کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی تھی. جس کے بعد وفاقی کابینہ کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہنگامی طور پر امدادی سامان پارا چنار بھیجا گیا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں