لکی مروت: اٹامک انرجی کمیشن کے مغوی ملازمین کو بازیاب نہ کروائے جانے کے خلاف احتجاج

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی ) پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے قبول خیل منصوبے پر کام کرنے والے ملازمین کی کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی تحویل سے عدم بازیابی کے خلاف آج لکی مروت میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔

احتجاجی دھرنے میں مظاہرین نے روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کرکے خیبرپختونخوا سے پنجاب کو ملانے والی لکی مروت میانوالی شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا ہے۔

مظاہرین نے مغویوں کی بحفاظت بازیابی میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے ان ملازمین کو جلد سے جلد بحفاظت بازیاب کرایا جائے۔

یہ احتجاج بنیادی طور ان ملازمین کی رشتہ داروں اور ابا شہید خیل قومی جرگے کی طرف سے کیا جا رہا ہے جبکہ جمعیت علما اسلام ف کے علاوہ مقامی حکومت کے نمائندوں اور علاقے کے عمائدین کی حمایت بھی شامل ہے۔

یاد رہے کہ کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کی تحویل میں اس وقت 10 ملازمین موجود ہیں جبکہ ایک ڈرائیور سمیت سات ملازمین بازیاب ہو گئے تھے۔

لکی مروت میں دو ہفتے پہلے جب 16 ملازمین اور ایک ڈرائیور صبح کے وقت جب کام کے لیے فیکٹری جا رہے تھے تو راستے میں مسلح افراد نے گاڑی کو روک کر ملازمین کو اتارا اور گاڑی کو دور لے جا کر آگ لگا دی تھی اور ملازمین کو نامعلوم مقام کی طرف لے گئے تھے۔

سکیورٹی فورسز اور مقامی پولیس کی جانب سے ان ملازمین کی بازیابی کے لیے کوششیں کی گئیں اور اس دوران سات ملازمین کو بازیاب کر لیا گیا جبکہ ان میں تین ملازمین زخمی بھی ہوئے تھے۔ اس وقت 10 ملازمین مسلح تنظیم کی تحویل میں ہیں۔

احتجاجی دھرنے میں مختلف سیاسی سماجی مغویان کے رشتہ دار اور وکلا برادری کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ شریک ہیں۔

اس دھرنے میں موجود مقررین نے کہا ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود اغوا کاروں سے کارکنوں کی رہائی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے اور ان کے رشتہ داروں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ مغوی کن حالات میں ہیں۔

مقررین نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے سنجیدگی کے فقدان کے باعث ملازمین کی بازیابی میں تاخیر ہوئی ہے۔

اس بارے میں ڈپٹی کمشنر لکی مروت ذیشان محسود نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ اس وقت میٹنگ میں مصروف ہیں بعد میں اس بارے میں بات کر سکیں گے۔

اس مظاہرے میں وکلا اور تاجر برادری کے نمائندوں نے تجاویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ لکی مروت مسلسل بد امنی کی لہر سے مقامی لوگ پریشان اور خوف کا شکار ہیں اس کے لیے اب یا تو اس وقت تک ہم دھرنا دے دیں جب تک مغوی بازیاب نہیں کرا لیے جاتے اور اگر سب راضی ہوں تو دھرنا جاری رہے گا اور پنجاب کو خیبر پختونخوا سے ملانے والی یہ شاہرہ بند رہے گی۔

دوسری جانب مظاہرے میں سول نا فرمانی تحریک شروع کرنے کی تجاویز بھی سامنے آئی ہیں۔

اس موقع پر مقررین کا مزید کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او اس دھرنے میں آکر یقین دہانی کرائیں کہ مغوی کب تک بازیاب کر لیے جائیں گے۔

یاد رہے کہ لکی مروت میں صوبہ پنجاب کی سرحد کے قریب قبول خیل کے مقام پر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا ایک منصوبہ جاری ہے جس میں مقامی افراد ملازم ہیں۔

ان ملازمین کے اغوا کے بعد ٹی ٹی پی کی جانب سے تین ویڈیوز جاری کی گئی تھیں جن میں یہ ملازمین کہہ رہے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں اور طالبان کی تحویل میں ہیں۔

ان ملازمین نے ویڈیوز میں کہا ہے کہ طالبان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں تاکہ ان کی بازیابی ممکن ہو سکے۔ ان ملازمین کے اغوا کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔

طالبان نے مطالبہ کیا کہ طالبان کے رشتہ دار، گرفتار یا لاپتہ ہیں جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں انھیں رہا کیا جائے۔ لکی مروت کے مجاہدین کا رہMARWAT
جائے ، آئندہ مجاہدین کاور ان کے عزیز و اقارب کے مکان مسمار نہ کیے جائیں ، فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے طالبان کے لوگوں کی لاشیں ان کے حوالے کی جائیں اور ان کی بے حرمتی نہ کی جائے اور جو مکان مسمار کیے گئے ہیں ان کا معاوضہ دیا جائے۔

مقامی صحافی محمد زبیر مروت نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی سطح پر ڈپٹی کمشنر لکی مروت کے ساتھ مغویوں کے رشتہ داروں اور جرگے کے افراد کے مذاکرات ہوئے ہیں جس میں انتظامیہ کی جانب سے یہی کہا جاتا ہے کہ وہ کوششیں کر رہے ہیں لیکن دو ہفتوں سے زیادہ وقت گزر گیا ہے اب تک کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔

ایک انتظامی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ اس وقت ان ملازمین کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن اغوا کاروں کی جانب سے جو مطالبات سامنے آئے ہیں ان پر غور کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب ان کی بازیابی کے لیے مقامی سطح پر بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

پولیس افسر نے بتایا کہ جو اطلاعات ان کے پاس موصول ہوئی ہیں جس علاقے میں ملازمین کو اغوا کیا گیا ہے یہ بنیادی طور پر پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے اور یہ جگہ ایک پیالے کی شکل میں ہے جس کے تین طرف پہاڑ ہیں اور اس کے سرحد ایک طرف صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی سے ملتی ہے اور دوسری جانب خیبر پختونخوا کے علاقے کرک سے ملتی ہے ۔ اب یہ معلوم نہیں ہے کہ اغوا کار ان مغویوں کو لے کر کہاں گئے ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں