کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) ہاکستان کے صوبے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ایک عدالت نے کتابوں کی سٹال لگانے کی بنیاد پر گرفتار کیے جانے والے چار طالب علموں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
گرفتار کیے جانے والے چاروں طلبا کی رہائی کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ ون کی عدالت میں ضمانت کی درخواستیں لگائی گئی تھیں جن کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے چالیس چالیس ہزار روپے کی ذاتی مچلکوں پر ان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
ان طلباء کو گزشتہ روز گوادر شہر میں ڈھوریہ سکول کے قریب سے گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ پولیس نے وہاں سٹال پر رکھی جانے والی کتابوں کو بھی تحویل میں لیا تھا۔
جن چار طلباء کو گرفتار کیا گیا ان میں نوروز بلوچ، حنیف بلوچ، شہریار اور چاکر بلوچ شامل ہیں۔ ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 149،147،188اور 153B کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔
اس سلسلے میں پولیس کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے طلبا نے سٹال لگاکر انتشار پھیلانے والی کتابیں طلبا اور خواندہ لوگوں میں نافذ العمل قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر اجازت فروخت کرنے کی کوشش کی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ بلوچ سٹودنٹس ایکشن کمیٹی کے طلبا دیگر طالب علموں کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے، امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے اور انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی، طلباء تنظیموں اور حق دو تحریک گوادر نے طلباء کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمے کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے طلباء کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمے کے اندراج کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ریاست شہریوں کے کتابیں پڑھنے اور علم بانٹنے کے عمل سے بھی خائف ہے۔‘
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کے چیئرمین بالاچ قادر بلوچ نے کہا کہ ’جو کتابیں سٹالوں پر رکھی گئی تھیں وہ لاہور اور کراچی میں موجود پبلشرز کی جانب سے چھاپی گئیں اور یہ پاکستان کے دیگر شہروں میں فروخت ہورہی ہیں لیکن یہاں ان پر پابندی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’نہ صرف گوادر بلکہ اس سے قبل تربت، نصیر آباد اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی طلباء کو کتابوں کا سٹال نہیں لگانے دیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست کے اس عمل نے یہ واضح کر دیا کہ بلوچ نوجوانوں کے ہاتھ میں کتاب کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔‘