اسلام آباد (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے/رائٹرز) پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا نے منگل کے روز پیکا ترمیمی بل 2025 منظور کر لیا، جس میں آن لائن ڈس انفارمیشن یا غلط اور جھوٹی خبروں کی تشہیر پر تین سال تک قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔
اس بل کے مسودے کے مطابق جو کوئی بھی آن لائن ایسی معلومات ”ارادتاﹰ پھیلائے‘‘ گا، جو”غلط یا جھوٹی ہوں اور خوف، افراتفری، انتشار یا بدامنی‘‘ کی وجہ بن سکتی ہوں، تو اسے تین سال تک کی سزائے قید یا بیس لاکھ روپے تک جرمانہ یا پھر دونوں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس بل کو پچھلے ہفتے ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں منظور کیا گیا تھا اور اب اس کے باقاعدہ قانون بننے کے لیے صرف ملکی صدر کی طرف سے منظوری باقی ہے۔
ترمیمی بل پر تنقید
پاکستانی صحافی اس بل کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور آج منگل کے روز بھی جب یہ ترمیمی مسودہ سینیٹ میں منظور کیا جا رہا تھا، تو وہاں موجود صحافی احتجاجاﹰ سینیٹ کی پریس گیلری سے باہر چلے گئے تھے۔
آج منگل کے روز خبر رساں ادارے اے ایف پی سے پیکا ترمیمی بل پر بات کرتے ہوئے صحافی آصف بشیر چوہدری نے کہا حکومت نے نامہ نگاروں کو یقین دلایا تھا کہ اس مجوزہ قانون کے حوالے سے ان سے مشورہ کیا جائے گا لیکن انہیں ”دھوکہ دیا گیا اور ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا۔‘‘
آصف بشیر، جو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے رکن بھی ہیں، نے مزید کہا، ”ہم واقعی مس انفارمیشن کے خلاف ایک قانون چاہتے تھے لیکن اگر ایسا بحث و مباحثے کے بجائے خوف اور زور زبردستی سے کیا جائے گا تو ہم اسے ہر پلیٹ فارم پر چیلنج کریں گے۔‘‘
بقول آصف بشیر، ”آمریت کے ادوار میں بھی پارلیمان میں اس طرح زبردستی قانون سازی نہیں کی جاتی تھی جس طرح یہ حکومت اب کر رہی ہے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما اور ملکی سینیٹر شبلی فراز نے پیکا ترمیمی بل کو ”انتہائی غیر جمہوری‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے ان کی جماعت کے ایکٹیوسٹس کو ”سیاسی طور پر زیادہ نشانہ بنایا جائے گا۔‘‘
بعد ازاں پاکستان کے متعدد شہروں میں صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ان مظاہرین کی کل تعداد سینکڑوں میں تھی، جن کا موقف ہے کہ پیکا کے قانون میں ترامیم کا مقصد پریس کی آزادی پر قدغن لگانا اور ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے۔
رائٹرز کے مطابق اس ترمیمی بل کے خلاف پی ایف یو جے کی قیادت میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت متعدد شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں، جن کے شرکا کا حکومت سے مطالبہ تھا کہ پارلیمان سے منظور شدہ اس بل کو واپس لیا جائے۔
اسلام آباد میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ یہ بل ’’آزادی صحافت پر براہ راست حملہ ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہماری تحریک تب تک جاری رہے گی جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جاتا۔‘‘
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس نے مظاہرین کو ریڈ زون کی طرف بڑھنے سے بھی روک دیا۔
حکومتی موقف
اس بل پر عمومی تنقید کے برعکس پاکستان کے وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کا کہنا ہے کہ پیکا ترمیمی بل میں سوشل میڈیا کی ‘پولیسنگ‘ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ”مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں پھیلنے والے انتشار کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔‘‘