قبائلی ضلع مہمند خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والی یہ بچی 15 مئی کو چیک شہزاد سے لاپتہ ہوگئی تھی۔ بچی کی عمر 10 سے 11سال بتائی جا رہی ہے۔
خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ انھوں نے لڑکی کی گمشدگی کی درخواست 15 مئی کو ہی تھانہ چیک شہزاد میں جمع کرائی تھی۔ لیکن بد قسمتی سے پولیس نے ایف آئی آر درج کرانے میں بہت بڑی دیر لگائی۔
چار دن بعد جب انکے خاندان والوں نے احتجاج کیا تو بمشکل پولیس نے ایف آئی آر درج کرائی۔
فرشتہ کی مسخ شدہ لاش قریبی جنگلات سے ملی ہے۔ اس بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بڑی بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات اب اس ملک میں روز کا معمول بن چکے ہیں۔ اس واقع میں بھی سب سے بڑی نا اہلی اور کوتاہی پولیس کی ہی نظر آرہی ہے۔ مسلسل ایسے واقعات کے رونما ہونے کے باوجود پولیس کا ایف آئی آر اور کاروائی میں دیر کر دینا عدل و انصاف کے منہ کو کالا کر دینے کے مترادف ہے۔ بد قسمتی سے کوئی ادارہ یہاں بغیر دھرنے اور احتجاج کے بات سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔
ہسپتالوں سے لے کر پولیس تک کوئی بھی ادارہ نیک نیتی سے عوام کی خدمت کیلئے تیار نظر نہیں آرہا ہے۔
ہم سب بحیثیت مسلمان صرف روزے رکھ رہے ہیں اور نمازیں اور تراویح پڑھ رہے ہیں۔ حج اور عمرے ادا کر رہے ہیں۔ لیکن ہم نے بحیثیت مسلمان کسی ظالم کے ظلم کیخلاف آواز اٹھانے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی۔ ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے جھوم رہے ہیں ۔ہم نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے اور ان کو بے دردی سے قتل کرنے والوں کو آج تک نشان عبرت نہیں بنایا۔ مسلمانوں کے بچے مسلمانوں کے گلیوں اور کوچوں میں محفوظ نہیں رہے۔ اسلام ہمیں امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے لیکن ہمارے گلی محلوں اور بازاروں میں سلامتی نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ کیا مسلمانوں کے محلے اور بازار ایسے ہوتے ہیں۔ کیا کوئی مسلمان ظلم ، درندگی اور نا انصافی پر ایسے خاموش رہ سکتا ہے۔ کیا ظالم حکمران کے سامنے صدا احتجاج بلند کرنا سب سے افضل جہاد نہیں ہے؟
جب درندے آپ نے بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہوں، ان کو سفاکانہ طور پر موت کے گھاٹ اتا رہے ہوں اور پھر بھی آپ اس پر خاموش ہوں تو یہ ایمان کے مکمل خاتمے کی پہلی دلیل ہے۔ جب ایمان ہی نہ ہو تو یہ حج عمرے ، روزے ، نمازیں کس کام کی؟ کیونکہ ایمان کا پہلا درجہ برائی کو ہاتھ سے روکنا ہے۔ دوسرا درجہ برائی کو زبان سے روکنا ہے، تیسرا درجہ اس کو دل میں برا کہنا ہے۔ بد قسمتی سے آج کل ہم ایمان کے ان تینوں درجوں سے بہت نیچے گر چکے ہیں۔ آج کل ہم صرف برائے نام مسلمان رہ چکے ہیں۔
رمضان المبارک کے مہینے میں فرشہ مہمند کا اغواء اور پھر زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنا کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔ اگر آپ مسلمان یا انسان ہیں تو آپ ان کی ماں باپ اور بہن بھائیوں کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں آپ کے پاؤں سے زمین نکل جائے گی۔ اس بے انتہا ظلم ، جبر و زیادتی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس بچی کا قتل اس ملک کے تمام حکمرانوں ،سیکیورٹی اداروں اور نظام عدل و انصاف کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔
آج ہم ان بے حس حکمرانوں سے کوئی مطالبہ نہیں کرینگے۔ ہم پاکستان کے تمام غیرت مند نوجوانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آئیں مل کر اس معصوم بچی کیلئے آواز بلند کرتے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ان کے سفاک قاتلوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔