آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں! (ساجد خان)

اسلام آباد میں گیارہ سالہ فرشتہ نامی بچی کی لاش ملی ہے،جو گزشتہ پانچ دن سے لاپتہ تھی۔
ذرائع کے مطابق فرشتہ کو جنسی زیادتی کے بعد آتشیں اسلحہ سے فائرنگ کر کے قتل کرنے کے بعد جنگل میں لاش پھینک دی گئی،جو کہ جنگلی جانوروں کے نوچنے کی وجہ سے کافی حد تک مسخ بھی ہو چکی تھی۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اور نا ہی آخری واقعہ ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایسے چھپے نام نہاد شرفاء موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ وہ انسانیت سوز مظالم بھی کریں لیکن دنیا پھر بھی ہمیں نیک ہی سمجھے،اسی لئے جنسی زیادتی کی سزا اس معصوم بچے کو قتل کر کے دی جاتی ہے تاکہ ان کا مکروہ چہرہ داغ دار نا ہو۔

ہمارے معاشرے میں یہ وباء خوفناک حد تک پھیل رہی ہے،یہاں تک کہ اب دو سال کے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ دس بچے زیادتی کا شکار ہوتے ہیں لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ بہت سے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور جرگہ یا دباؤ کی وجہ سے معاملہ کو دبا دیا جاتا ہے۔

آۓ روز اس طرح کی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں علاقے میں ایسا ہولناک واقعہ پیش آیا ہے اور اس وحشی پن میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اب تو یہ حالت ہے کہ صرف زیادتی کی خبر کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی جب تک جنسی زیادتی کے بعد قتل نا کیا گیا ہو۔

اس پر بھی سوال یہی کیا جاتا ہے کہ آخر قتل کرنے کی کیا وجہ تھی یعنی اب ہماری نظر میں جنسی زیادتی گویا کوئی جرم ہی نہیں رہا۔
مجھے یاد ہے کہ کالج کے زمانے میں ایک دن ہمارے ایک استاد کلاس میں داخل ہوئے تو کافی پریشان نظر آۓ،وجہ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ آج صبح جب میں کالج کے لئے آ رہا تھا تو ایک گلی سے گزرتے ہوئے مجھے دو تین سال کی ایک خوبصورت سی بچی کھیلتی ہوئی نظر آئی،میں نے بے اختیار اسے اٹھایا اور پیار کیا کہ اچانک اس بچی کی والدہ جو یہ سب دیکھ رہی تھی،مجھے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔

میں نے اسے سمجھایا کہ یہ بچی میری اولاد سے بھی بہت چھوٹی ہے اور میں نے اسے اپنی بچی کی طرح سمجھ کر پیار کیا لیکن وہ مسلسل مجھے کوس رہی تھیں کہ اردگرد محلے کے افراد بھی جمع ہونا شروع ہو گۓ اور جب انہیں سب معاملہ معلوم ہوا تو انہوں نے بھی خواتین کو سمجھایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے جس پر آپ خفا ہو رہی ہیں،خیر معاملہ رفع دفع ہو گیا لیکن ہمارے استاد نے کہا کہ غلط نا ہی میں تھا اور نا ہی وہ خاتون کہ اب حالات ہی کچھ ایسے ہو گۓ ہیں کہ کسی پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
یہ واقعہ طویل عرصہ تک میرے ذہن میں گھومتا رہا کہ وہ خاتون عجیب غلط ذہنیت کی مالکہ تھیں کہ ایک دو سال کی بچی سے پیار کرنے کو بھی غلط رنگ دے دیا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا حالات و واقعات نے یہ بات سمجھا دی کہ وہ خاتون واقعی میں صحیح تھیں۔

آج آپ کسی پر بھی اعتبار نہیں کر سکتے،نجانے معاشرے میں یہ وحشی پن کہاں سے آ گیا کہ تین چار کی بچی جسے دیکھ کر کبھی جنسی خیالات تک نہیں آتے،ان بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔

جن معصوم بچوں کو روتا نہیں دیکھا جا سکتا،ان کا نہایت بیدردی کے ساتھ قتل کر دیا جاتا ہے۔
ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے،سب سے زیادہ افسوسناک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ اکثر واقعات میں قریبی عزیز ہی ملوث پائے جاتے ہیں،جن پر بچے آسانی سے اعتبار کر کے کہیں بھی جانے کے لئے راضی ہو جاتے ہیں۔

اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ جب بچے کے ورثاء پولیس کے پاس گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے کے لئے جاتے ہیں تو ان واقعات کو سنجیدہ ہی نہیں لیا جاتا اور یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ بچہ ہے کسی عزیز کے ہاں چلا گیا ہو گا،رات تک واپس نا آیا تو پھر ہمارے پاس آنا اور یوں جس وقت میں بچے کی تلاش کر کے حادثے سے بچا جا سکتا ہے،اس وقت کو پولیس روایتی بے حسی میں ضائع کر دیتی ہے۔

اسلام آباد کی بچی فرشتہ کے بھائی نے بھی پولیس کے رویہ کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چار دن سے مسلسل ہم تھانے کے چکر لگا رہے ہیں مگر پولیس یہی کہتی رہی کہ خود ہی کہیں چلی گئی ہو گی یا پھر تمھاری مار پیٹ کے خوف سے گھر چھوڑ گئ ہو گی، اس بچی کے بھائی کے مطابق ان سے پورے تھانہ کی صفائی کروا کر واپس بھجوا دیتے تھے یعنی کہ پریشان حال باپ بیٹے کی دادرسی کے بجائے تذلیل کی جاتی رہی۔

یہ ہمارے دارالحکومت کی مثالی پولیس کا رویہ ہے تو دور افتادہ علاقوں کا کیا حال ہو گا۔

ہمارا میڈیا بھی سال میں کسی ایک واقعہ کو ایشو بنا کر اہمیت دیتا ہے ورنہ اکثریت بچوں کا خون یوں ہی رائیگاں چلا جاتا ہے۔

حکومت کی بات کریں تو اسے گویا نئ نسل کی تباہی کی پریشانی ہی نہیں ہے بس پریشانی ہے تو صرف اس بات کی کہ اپوزیشن نے کیا بیان دیا اور اس کے جواب میں کس کی تذلیل کرنی ہے۔
سب وزراء کے پاس صرف ایک ہی ذمہ داری ہے کہ اپوزیشن کی بدتمیزی کا جواب بدتمیزی سے دینا ہے۔

والدین پریشانی کے ساتھ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں کہ کس طرح اپنے بچوں کو چوبیس گھنٹے چھوٹے سے گھر میں مرغی کے بچوں کی طرح قید کر کے رکھیں کہ کہیں باہر نکلیں اور کسی وحشی درندے کا نشانہ نا بن جائیں۔

کس سے التجا کریں اور کس سے شکوہ کریں۔
پولیس کمزور تفتیش کرتی ہے تو عدالتیں کمزور قانون کی بنا پر مجرم کو رہا کر دیتی ہیں لیکن متاثرین ساری زندگی اس واقعہ کے اثرات سے باہر نہیں نکل پاتے مگر کسی کو تو نئ نسل کے تحفظ کے لئے سنجیدہ فیصلے کرنے ہوں گے۔
کسی وحشی درندے کو تو عبرت ناک سزا دے کر مثالِ عبرت بنایا جائے تاکہ ان سنگین جرائم میں کمی واقع ہو۔

آپ سعودی عرب اور ایران سے لاکھ اختلاف رکھیں لیکن پاکستان کے آئین میں ایسے ملزمان کو سعودی عرب کی طرح سرعام سر قلم کر دینا چاہئے یا ایرانی قانون کی طرح سرعام پھانسی پر لٹکا دینا چاہئے کیونکہ نئی نسل کو محفوظ بنانے کے لئے کچھ سخت اقدامات کرنے ہوں گے ورنہ یہ وحشی درندے یوں ہی مظالم ڈھاتے رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں