ایک طرف ہم خود کو بڑے محب وطن ثابت کرنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ مگر دوسری طرف ہم اس ملک میں جاری قتل و غارتگری، ظلم و ستم، لا قانونیت اور ناانصافی پر ایسے خاموش ہیں جیسے کچھ بھی برا نہیں ہو رہا ہے۔ ایک طرف ہم سرکاری رٹ قائم کرنے کیلئے ہر جائز و نا جائز ہرکت کی حمایت کرنے سے نہیں کتراتے۔ مگر دوسری طرف اس ویڈیو پر خاموش ہیں جو ابھی تک ضلع چترال میں دسیوں افراد کی زندگیوں کو خاک میں ملا چکی ہے۔ مٹھی بھر لوگ غیرت کے نام پر پورے ملک کے انصاف اور قانون کو پامال کرتے ہوئے پہلے ان تمام لڑکیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ اس کے بعد اس ظلم کیخلاف آواز اٹھانے والے افضل کوہستانی کے تین سگے بھائیوں کو قتل کر دیتے ہیں۔
جب افضل کوہستانی اپنا مقدمہ لڑنے کیلئے ایبٹ آباد کی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو ان کے دشمن ملک کے سارے سیکیورٹی کو جوتے کے نوک پر رکھ کر افضل کوہستانی کو عدالت کے سامنے گولیوں سے چھلنی کر دیتے ہیں۔ افسوس اس امر کی ہے کہ پولیس والے خود افضل کوہستانی سے لایسینس والا پستول بھی لیتے ہیں اور اس طرح ان کے دشمن ان کو با آسانی قتل کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوچاتے ہیں۔
یہ واقعہ گزر کیا ہم سب نے مذمت کرکے اپنا فرض پورا سمجھا۔ لیکن ہمیں ذرا بھی کسی انسان کے بیوی اور بچوں کا احساس تک نہیں ہوا۔ اب انکی بیوی کے اغواء ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ خدا جانے انکے بچے کس حال میں ہونگے؟ ہمارے محب وطن پاکستانی کب انکے لئے آواز بلند کرینگے؟ اگر حکومت نے جلد از جلد افضل کوہستانی کے بیوی اور بچوں کو بازیاب نہیں کرایا تو خدا ناخواستہ ان کی مسخ شدہ لاشیں بھی کسی جنگل سے ملیں گی اور ہم ایک دفعہ پھر اسی طرح مذمت کرتے رہیں گے۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔