آپ کو یاد ہو گا کہ امریکہ کے گزشتہ انتخابات کے دوران صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کا ای میل اکاؤنٹ ہیک ہو گیا،جس کی وجہ سے بہت سی پوشیدہ باتیں منظر عام پر آئیں۔
اس واقعہ کے فوراً بعد ہی امریکی تفتیشی ادارہ ایف بی آئی حرکت میں آیا،ہیلری کلنٹن سے تفتیش کا آغاز شروع کر دیا گیا اور یہی بات ہیلری کلنٹن کی شکست کی وجہ بھی بنی،جس کا اظہار وہ خود بھی مختلف اوقات میں کر چکی ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران ایف بی آئی کی تفتیش شروع کرنے پر امریکی دانشوروں کی طرف سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا اور اس کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا،ان کا موقف تھا کہ ریاستی اداروں کو سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے سے ادارے متنازعہ ہو جاتے ہیں،جس کی وجہ سے عوام کا ان پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے جو کہ ایک نہایت ہی خوفناک بات ہے۔
اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ریاستی اداروں پر جتنا اعتماد کم ہوتا جاتا ہے معاشرے میں اتنی ہی بے چینی بڑھنے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔
دنیا کے وہ ممالک جنہیں پرامن تصور کیا جاتا ہے،اس کی ایک اہم وجہ یہی ہے کہ عوام کو اپنے اداروں پر اعتماد ہے۔
پاکستان کی اگر ہم بات کریں تو یہاں ہر ادارہ ہی سیاست کا شکار ہو چکا ہے بلکہ ہر ادارے میں ان سربراہان کو ہی لگایا جاتا ہے جو آپ کے مفادات کا خیال رکھے۔
پولیس ہو یا عدالت،تحقیقاتی ادارے ہوں یا فلاحی ادارے سب میں مفادات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہر شخص اپنے معاملات کا فیصلہ اپنے ہاتھوں سے کرنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ اس کا ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہو چکا ہوتا ہے۔
بہاولپور میں شاگرد کے ہاتھوں استاد کا قتل بھی اسی سوچ کی ترجمانی تھی کہ اسے اس بات پر یقین تھا کہ اگر استاد نے واقعی مذہب کی توہین کی ہے اور اسے سزا دلوانے کے لئے پولیس اور عدالتوں کا رخ کیا تب وہ جلد ہی باعزت بری کر دیا جائے گا اور یہی سوچ خطرناک ہے۔
اب اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ جو بات مجھے توہین محسوس ہو رہی ہے،وہ واقعی میں توہین ہے بھی یا نہیں،وہ تو بس یہ جانتا تھا کہ قانون میری مدد نہیں کرے گا لہذا اس لئے اس نے قانون کا راستہ اپنانے کے بجائے خود ہی عدالت سجا لی اور خود ہی سزا سنا دی۔
آج اکثریت پولیس اور عدالتوں کے پاس جانے سے بہتر جرگہ اور پنچایت کو سمجھتی ہے کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ یہاں ہماری بات کو سنا بھی جائے گا اور حقائق کے مطابق جلد از جلد فیصلہ بھی ہو جائے گا جبکہ ریاستی اداروں میں سوائے رسوائی اور جمع پونجی کے ضیاع کے،کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
ہمارے معاشرے میں تو یہ معاملات اس حد تک بڑھ گۓ ہیں کہ اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لئے نۓ ادارے ہی قائم کر لۓ جاتے ہیں جیسا کہ سابق آمر جنرل پرویز مشرف نے نیب کا ادارہ تخلیق کیا۔
اس ادارے کا مقصد ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہرگز نہیں تھا بلکہ کرپٹ افراد کو خوفزدہ کر کے اپنا وفادار بنانے کے لئے یہ ادارہ قائم کیا گیا۔
موجودہ حکومت میں گو کہ نیب کو آزاد اور شفاف ادارہ ظاہر کیا گیا لیکن جب بھی نیب نے حکومتی جماعت کے افراد پر ہاتھ ڈالا تو ان کی چیخیں بھی ویسے ہی سنی گئیں جیسے اپوزیشن چیخ و پکار کرتی نظر آ رہی تھی اور پھر اچانک ہی نیب بھی مشکوک ادارہ بنتا چلا گیا،جس کا نتیجہ ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ چیئرمین نیب کی قابل اعتراض ویڈیوز منظر عام پر لائی جا رہی ہیں۔
چیئرمین نیب کی حرکات پر سب کو اعتراض ہے لیکن کیا اس کے بعد یہ ادارہ اپنی ساکھ بحال کر پائے گا یا عوام اس بات پر یقین کرے گی کہ ہمارے ملک میں بلا امتیاز احتساب ہو رہا ہے ؟
ظاہر ہے کہ اب مزید شکوک و شبہات اور عدم اعتماد پیدا ہو گا۔
چیئرمین نیب کی جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں،اس میں گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ موسم سرما کی ہیں یعنی کچھ مفادات تو تھے جس کے لئے اتنے ماہ خاموشی اختیار کی گئی اور اس وقت ویڈیوز جاری کرنے کا مقصد بھی صرف بدنامی ہی کرنا تھا کیونکہ اگر وہ افراد ادارے یا ملک سے مخلص ہوتے تو یہ ویڈیوز ان با اختیار افراد کے حوالے کرتے جو نہایت رازداری کے ساتھ محکمانہ کارروائی کرتے تاکہ ادارے کا تقدس برقرار رہتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں ایک ایسا طاقتور مافیا کام کر رہا ہے جو اہم عہدوں پر فائز شخصیات کی کمزوریاں تلاش کر کے ان سے بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے کام نکلواتا ہے اور انکار کے بعد ان کی تذلیل اور کیرئیر تباہ کرنے کے لئے ان کمزوریوں کو دنیا کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جس خاتون طیبہ فاروق نے یہ ویڈیو بنائی ہے،اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سرگودھا سے پی ٹی آئی کی عہدیدار یا کارکن بھی ہیں اور جس نیوز چینل نے یہ ویڈیو سب سے پہلے ویڈیو لیک کی،اس چینل کے مالک وزیراعظم عمران خان کے مشیر طاہر اے خان تھے گو کہ اس واقعہ کے بعد وزیراعظم نے طاہر اے خان کو برطرف کر دیا لیکن اگر پاکستان تحریک انصاف اس معاملے میں ملوث نہیں بھی ہے تب بھی اس جماعت کو مشکوک نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔
چیئرمین نیب ایماندار تھے یا نہیں،اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بھی ہے کہ ہمیں ایماندار شخص اس وقت تک ہی اچھا لگتا ہے جب تک اس سے واسطہ نہیں پڑتا،جوں ہی اس سے پالا پڑتا ہے تو صرف یہی جملہ زبان پر آتا ہے کہ یہ کیسا پاگل شخص ہے کہ نا ہی سفارش مانتا ہے اور نا ہی رشوت قبول کرتا ہے۔
چیئرمین نیب سکینڈل معمولی واقعہ نہیں ہے کیونکہ عوام میں جو ریاستی اداروں کے بارے میں بد اعتمادی تھی،اس واقعہ نے مزید بڑھاوا ملا ہے۔ اب اگر نیب نیک نیتی سے بھی کام کرے گا تب بھی اس کی کارکردگی کو مشکوک نظروں سے ہی دیکھا جائے گا۔
ریاست کو اداروں پر عوامی اعتماد کو بحال کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ملک کا نظام بہتر ہو سکے اور عوام کو یقین ہو کہ ہمیں اپنے اداروں سے انصاف ملے گا اور اب انہیں اپنی عدالت خود لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔