دینا میں سوچنے کے عمل اور طریقوں پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہے۔ آج کی جدید دنیا انسانوں کو سوچنے کے طرز عمل کے بارے پڑھایا جاتا ہے۔ ہم کیا سوچیں اور کیسے سوچیں؟
انسان کے سوچنے کا اس کے طرز عمل پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ غلط سمت میں سوچنے سے انسان کو بہت بڑے نقصانات ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح درست سمت میں سوچنے سے انسان بہت بڑے نقصانات سے بچ سکتا ہے۔ اگر سوچنے کے درست طریقوں کو انسان اپنے زندگی پر لاگو کرے تو انسان اپنی زندگی کو پرسکون اور خوشگوار بنا سکتا ہے۔
ہم اپنی زندگی کے میں بہت سی تباہیوں کا زمہ دار بیرونی دنیا کو سمجھتے ہیں۔
ہم اپنی ناکامیوں کیلئے دوسرے لوگوں کو زمہ دار ٹہراتے ہیں جبکہ ہماری ناکامیوں اور بربادیوں کے اصل زمہ دار خود ہماری سوچ ہوتی ہے۔ مختلف معاملات میں ہمارا ردعمل کافی اثر رکھتا ہے۔ اگر ہم کسی ناخوشگوار صورتحال پر معاملات سے اوپر اٹھ کر سوچین تو ہم اس ناخوشگوار صورتحال کو مثبت سوچ ذریعے خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ ہم اس مشکل مرحلہ کو تحمل کے ساتھ عبور کر سکتے ہیں۔ جو انسان اپنی سوچ کو وسیع کرنے کی استعداد رکھتا ہو وہ ہمیشہ اپنے جذبات کو کنٹرول کرسکتا ہے۔ اس طرح وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ کر اس کے ممکنہ حل تلاش کرتا ہے۔
قوموں کی ترقی اور زوال میں فرق صرف ان کی سوچ کا ہی ہوتا ہے۔ ہم دوسروں کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں مگر اپنے بارے میں بہت کم سوچتے ہیں۔ ہم اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھنے کی بجائے دوسروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر نظر رکھنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔ ہمارے پاس دوسروں کیلئے سوچنے کا وقت ہے مگر اپنے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ہے۔
ریسرچ بتاتی ہے کہ آدمی جب کسی بحرانی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے اندر چھپی ہوئی قدرتی صلاحیتوں کا نمود ہوتا ہے۔ جو انسان کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ کسی مسئلے کا بہترین حل تلاش کرسکے۔
بلند اور مثبت سوچ انسان کو رفعت عطا کرتی ہے جبکہ پست سوچ انسان کو اسفل السافلین کے درجے پر لے جاتی ہے۔ آج ہماری اجتماعی ناکام اور پستی کیوجہ وہ غلامانہ سوچ ہے جو پشتوں سے ہمارا پیچھا کر رہی ہے۔ ہم نسل در نسل غلامی کے تصور کو پروموٹ کرتے آرہے ہیں۔ اس دنیا میں مغلوبیت دراصل اپنی کمزوری کی قیمت ہے۔ جب آدمی کسی دوسرے کے مقابلے میں ہار جاتا ہے تو اس کی وجہ اس کی ذاتی کمی ہوتی ہے۔
مارٹن لوتھر کنگ کا قول ہے کہ ” کوئی شخص تمھاری پیٹھ پر سواری نہیں کر سکتا جب تک وہ جھکی ہوتی نہ ہو”
یہی حقیقت ہے کہ ہم اپنی غلامانہ سوچ کے ذریعے دوسری اقوام کو یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہ ہم کو مغلوب کرے۔ اس لئے ہمیں ہمیشہ دوسری ترقی یافتہ اقوام کے مظالم کا پر رونے دھونے کی بجائے اپنی سوچ کو بدلتا ہوگا۔ جب ہم اپنی سوچ بدلیں گے تب ہمارا ملک بھی بدے گا۔ اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کا دارومدار صرف ہماری سوچ پر ہے۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔