” حکومت ” عربی زبان کے ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ حکومت عوام کی طرف سے حکمرانوں کے پاس رکھی گئی چھوٹی اور بڑی امانتوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ حکومت بھی ایک امانت ہوتی ہے۔ جب کوئی امانت نا اہل کے سپرد کی جاتی ہے تو اس کی سلامتی خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے۔
ملک کا حکمران مالک الملک یعنی عوام کے منشاء کے مطابق ایک منشی بن کر عوام کی ان امانتوں کی حفاظت اور نگرانی کرتا ہے۔ ان امانتوں میں عوامی اقدار اور حقوق کی پاسداری بھی شامل ہے۔
حکومتی عہدیداران وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس امانتوں کی پاسداری، نگرانی اور حفاظت کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ عہدیدار اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنا وعدہ وفا کرنے کا عہد کرتا ہے۔ تمام حکومتی عہدیدار اس امانت میں دیانت کے پابند ہوتے ہیں۔
حکومتی عہدیداروں کا سب سے بنیادی اور اہم فریضہ اپنے اقتدار کی حفاظت نہیں بلکہ عوامی اقدار کی حفاظت ہوتی ہے۔ خواہ اس زمہ داری کو نبھانے ہوئے ان کا اقدار محفوظ رہے یا نہ رہے۔
حکومت کا کام عوام کی جان و مال ، اقدار اور حقوق کو محفوظ بنانے کیلئے حکمت اور تدبیر کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کی تدبیر اور حکمت عملی میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، تاجروں اور سوداگروں کو افتدار کے منبع سے دور رکھا جائے۔ وہ اس لئے کیونکہ تاجر یا سرمایہ کار ملک کے خزانوں کو اپنی تجارت کو دوام بخشنے کیلئے استعمال کرے گا۔ سوداگر اپنے ہی عوام کا سودا کرکے ملکی مال و دولت کو بیرونی قوتوں کے ہاتھ بیچ دے گا۔ جاگیر دار الیکشن جیت کر اپنے رعیت کو اپنا غلام سمجھے گا۔
حکمران کی سب سے بڑی زمہ داری ان ساری قوتوں کے درمیان انصاف کرنا ہوتا ہے تاکہ کسی بھی فریق کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے۔ متوسط اور عریب طبقے پر احسان کرنا بھی حکومتی زمہ داریوں کا حصہ ہوتی ہے۔
امانت کی روح دیانت ہے۔ ہر حکمران کا دیانت دار ہونا امانت کیلئے بنیادی شرط ہے۔ حکمران کا مطلب حکم چلانا نہیں ہوتا بلکہ اپنے مالک الملک یعنی عوام کی طرف سے تفویض کردہ زمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ اگر کوئی حکمران اس امانت میں خیانت کا مرتکب پایا جاتا ہے تو اسی بدیانتی ملک سے غداری کے زمرے میں آتی ہے۔ ایسا حکمران عوام کا مجرم تصور کیا جاتا ہے۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔