ضلع کرم سے دو ایم این ایز اور ایک سینیٹر قومی اسمبلی میں نمائندگی کرتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ انکے اچھی کوششوں کی تعریف کی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم نے ہمیشہ ان کے کوتاہیوں پر تعمیری تنقید بھی کی ہے۔ اسکے علاوہ مقامی سول اور فوجی انتظامیہ پر بھی تعمیری تنقید کرتے رہیں ہیں۔ موجودہ سول اور فوجی انتظامیہ نے اس علاقے میں امن کو برقرار رکھنے کیلئے بہت مثبت کوششیں کی ہیں جو در حقیقت قابل ستائش ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر ضلع کرم کی طرف سے ضلع کرم میں 3G , 4G بحال کرنے کیلئے حکومت کو خط لکھنے کا پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
اسی طرح پاراچنار ائر پورٹ کو فعال بنانے کے حوالے سے ایم این اے ساجد حسین طوری کا وزیراعظم کو خط لکھنا انتہائی اچھا اقدام ہے۔ سینٹر سجاد حسین طوری نے ہمیشہ قبائلی مسائل کو حل کرنے کیلئے پارلیمنٹ سمیت دیگر فورمز پر نہایت مثبت کوششیں کی ہیں۔ ہم انکے کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ حاجی منیر خان اورگزئی نے سنٹرل کرم کے تحصیل ڈوگر اور دیگر علاقوں کے عوام کو زیوز تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں جو قابل ستائش ہیں۔
ان کے ساتھ ساتھ ائر مارشل ریٹائرڈ سید قیصر حسین، سابق سینیٹر سید سجاد حسین میاں، سابق ڈی آئی جی سید ارشاد حسین ،سید اقبال میاں اور ابرار جان طوری کی کوششوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
ضلع کرم میں موجود فوجی انتظامیہ کا کا رول بہت مثبت اور بلا تفریق رہا ہے۔ خاص طور پر برگیڈئیر اختر علیم صاحب نے علاقے میں امن اور بھائی چارے کی فضاء کو قائم رکھنے کیلئے مثبت اقدامات کئے ہیں۔ ہم ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ جلد از جلد بالشخیل کے زمینوں سے غیر قانونی قبضے کو چھڑانے اور حقدار کو اپنا حق دینے کیلئے مثبت کوشش کرینگے۔ اس کے علاوہ برگیڈئیر صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ یہ تلاشیاں بھی اب ختم ہونی چاہئے۔ پورے ضلع کرم کو ایک گھر جیسا پر امن بنائیں۔
پاراچنار ضلع کرم کے عوام سے التماس کرتے کہ آپ تنقید ضرور کیجیئے۔ آپ کی تنقید ہی سے ان حضرات کی پرسنیلٹی بلڈنگ ہوتی ہے اور علاقے کے بنیادی مسائل بھی حل ہوتے ہیں۔ لیکن اپنی تنقید ہمیشہ مثبت انداز سے کیجیئے۔ کسی کی بھی ذاتی توہین مت کیجیئے ۔جو کوئی بھی اچھی اور مثبت کوشش کرتا ہے ان کو ڈسکرج بھی مت کیجیئے۔
اب پاراچنار ضلع کرم کے کچھ اجتماعی بنیادی مسائل کا ذکر کرنا فرض سمجھتا ہوں۔
سب سے پہلا مسئلہ یہاں ہسپتالوں کا ہے۔ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پاراچنار کو ابھی تک گریڈ اے کا درجہ نہیں دیا گیا۔ آج بھی وہاں پر بچوں کی اموات جاری ہے۔ سٹاپ اور دیگر سہولیات کی کمی ابھی تک نہیں پوری ہوئی ہے۔ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سے اب زیادہ سٹاف کا ٹرانسفر ہوا ہے۔ اس شدید کمی کو فوری طور پر پورا کرنی کی ضرورت ہے۔ صوبائی وزیر صحت نے خود ہسپتال کا دورہ کیا تھا۔ ہم ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کوشش کرینگے۔
تحصیل صدہ سمیت دیگر تمام ہسپتالوں کی حالت تو دیکھنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ حکومت نے ابھی تک وہاں پر سٹاف اور دیگر سہولیات فراہم نہیں کئے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ صدہ اور تحصیل علی زئی سمیت ضلع تمام ہسپتالوں کو سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
ضلع کرم قدرتی پانی سے مالا مال ہے لیکن افسوس کہ پاراچنار شہر ، اپر کرم ، لوئر کرم اور سنٹرل کرم میں بہت سے گھرانے پانی کے بوند بوند کو ضلع تھر کے لوگوں کی طرح ترس رہے ہیں۔ حکومت سے گزارش کیجاتی ہے کہ ضلع کرم کے مختلف دریاوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیم اور ریزروئرز بنائیں جائیں تاکہ بجلی اور پانی کے تمام تر بنیادی مسائل کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
پاراچنار سے کوہاٹ تک روڈ پیچھلے 70 سالوں سے زیر تعمیر رہا ہے۔ ہمارے معزز ایم این ایز ، سینیٹرز، سرکاری افسران اور مشران اسی روڈ روزانہ سفر کرتے ہیں۔ یہ سڑک افغانستان کے تین صوبوں کو ملاتی ہے۔ مگر افسوس کہ اس کو آج تک ہائی وے یا موٹر وئے درجہ نہیں دیا گیا۔ پنجاب میں تو گاؤں گاؤں موٹرویز بن رہے ہیں مگر ہمارا بین الاقوامی سڑک 70 سال سے صرف ریپیر ہو رہا ہے۔
پورے ضلع کرم سے ہزاروں خاندان لڑائیوں کی وجہ سے بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان کی زندگیاں تباہی و بربادی سے دوچار ہیں۔ ان سب کو دوبارہ اپنے اپنے گھروں اور علاقوں میں آباد کرنے کیلئے حکومت فوری طور پر اقدامات کرے۔ انکی ہر طرح مالی امداد کی جائے۔
اس کے علاوہ صدہ شہر میں اہل تشیع کے امام بارگاہ اور مسجد کی تعمیر نو کی اشد ضرورت ہے۔ ان کو دہشتگردی کے دوران مسمار کر دیا گیا تھا۔ صدہ لوئر کرم کا تحصیل ہے وہاں پر اہل تشیع کی امام بارگاہ اور مسجد کی تعمیر نہایت ضروری اور اہم ہے تاکہ علاقے سے فرقہ واریت کا خاتمہ ہو اور عوام کے درمیان محبت و بھائی چارے کی فضاء قائم ہوسکے۔
ہم تحریک انصاف کی حکومت کو خراج تحسین پیش کرتے کہ ان کے وزیر اعلی نے پاراچنار ضلع کرم کا دورہ کیا اور میڈیکل کالج کا قیام کا اعلان کیا۔ یہ ہمارا بہت بڑا اور بنیادی مسئلہ تھا۔ ہم ان سے امید کرتے ہیں وہ میڈیکل کالج کے قیام کو یقینی بنائیں گے۔
اسکے علاوہ ضلع کرم میں یونیورسٹی کے قیام کو بھی یقینی بنائیں تاکہ قبائلی علاقوں میں تعلیمی انقلاب سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔
پورے ضلع کرم میں گرلز ہائی سکولوں کی شدید قلت ہے۔ لھذا مزید گرلز ہائی سکولوں کی منظوری دی جائے۔
پاراچنار ائر پورٹ کو پنجگور ائر پورٹ کے طرز بین الاقوامی پروازوں کیلئے بھی فعال بنایا جائے۔
ضلع کرم کے تمام سکولوں کو سٹاف ، بلڈنگ اور دیگر سہولیات فراہم کئے جائیں۔
تمام چھوٹے چھوٹے سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کی جائے، مختلف دریاوں پر پل موجود نہیں ہیں۔ عوام کو دریاوں میں طغیانی کے وقت شدید مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ لھذا ضلع کرم میں پلوں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔
ضلع کرم معدنی وسائل اور قدرتی حسن سے مالامال ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ضلع کرم میں سیاحت کو فروغ دیں۔ اسکے ساتھ ساتھ وہاں سے معدنیات کو نکالنے اور دریافت کرنے کے وسائل کی بھی ضرورت ہے
ضلع کرم کے نوجوان سے التماس کرتا ہوں کہ علاقے کے مسائل پر بلا تفریق بات کیجیئے اور حکام بلا تک اپنے پیغام کو پہنچانے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کیجیئے۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔