عملی”علمی” جدوجہد کی اہمیت! (میر افضل خان طوری)

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا کہ اس دنیا کا سب کچھ میں نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے۔ اس دنیا میں اللہ تعالی انسان کو بھیجنے سے پہلے انکے لئے تمام اسباب مہیا کر دیتا ہے۔ انسان بعد میں آتا ہے اس کی غذا پہلے آتی ہے۔ پرورش سے لےکر بڑھاپے تک انسان اس دنیا میں اللہ تعالی کا مہمان ہوتا ہے۔ تمام اسباب زندگی مہیا ہونے کے باوجود اللہ رب العزت انسان کو مزید مانگنے کیلئے دعا کا سہارا لینے اور ان سے طلب کرنے کا حکم دیتا ہے۔
انسان کی تمام تر ترقی کا دارومدار اس کی اپنی استعداد اور عملی جدوجہد پر ہوتا ہے۔ انسان کے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا واحد سہارا ” علم ” ہے۔

ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ درست معلومات کے مطابق اپنے عملی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ انسان کیلئے سب سے مشکل کام سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا اور حق و ناحق کی پہچان کرنا ہے۔ جب تک انسان صحیح اور درست علم حاصل نہیں کرتا تب تک وہ اپنی عملی زندگی کو کامیابی سے پوری طرح ہمکنار نہیں کر سکتا۔

کسی بڑے عالم کی سب سے پہلی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ با اخلاق ہو۔ اس کا علم صرف خیر کا باعث ہو۔ ان کا علم بنی نوع انسان کے اقدار کی پاسداری سے مربوط ہو۔ وہ دیانت دار ہو۔ اس کے پاس جو کچھ ہے اس کو اپنے پاس انسانیت کیلئے ایک امانت سمجھتا ہو۔ ایک بد دیانت عالم اپنے اردگرد بہت سی محرومیوں کا باعث بنتا ہے۔ کسی علمی شخصیت کیلئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کیلئے امن کا پیغمبر ہو۔ وہ انسانوں کا احترام کرنے کی تہذیب سے پوری طرح آشنا ہو۔ دوسرے لوگوں کی عزت نفس کی تقدیس و تکریم کا سلیقہ رکھتا ہو۔ لوگوں کو عزت اور قدر کے نگاہ سے دیکھتا ہو۔ لوگوں تک اپنا پیغام شائستگی اور اعلی ظرفی کے ساتھ پہنچانے کا فن رکھتا ہو۔

بد زبان عالم پورے انسانی معاشرے کیلئے باعث اذیت ہوتا ہے۔ ان کے کسی درست بات پر بھی لوگوں یقین کرنے اور عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ لوگ ایسے شخص سے دور بھاگتے ہیں۔ علمی شخصیت کیلئے ضروری ہے کہ وہ اعلی اخلاق و کردار کا عملی پیکر ہو۔

وہ “علم” جس پر “عمل” نہ ہو انسان کیخلاف خود ایک فرد جرم بن جاتا ہے۔ علم کا وصال جب تک جسم سے قائم نہ ہو وجود بشری پر وارد نہیں ہو سکتا۔ اگر علم عمل کے سانچے میں ڈھل جائے تو وہ وجود بشر کو جمود سے نکال کر وجد میں داخل کردے گا۔ قوموں کے زوال میں سب بڑا کرادار بےعملی کا رہا ہے۔ بے عمل قوم ہمیشہ بڑے بڑے آفات کے زد میں میں آتی ہے۔

اللہ تعالی نے انسان کو علم کی دولت اس لئے عطا کی ہے کہ وہ فنا سے اپنی بقاء کی طرف پرواز کرسکے۔ علم کے بعد بےعملی درحقیقت اپنی ہی “علم” پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ انسان جب اپنے علم پر عمل نہیں کرتا تو وہ دراصل اپنے علم دینے والی ہستی سے خیانت کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں