پنجاب کی مظالم پر خاموشی….؟ (راؤ محمد نعمان)

پاکستانی صوبہ پنجاب آبادی کے لہاظ سے بھارتی صوبوں(ریاستوں) اتر پردیش، مہاراشٹرا، بہار اور چین کے صوبہ گونگ ڈونگ (Guangdong) کے بعد دنیا کا پانچواں بڑا صوبہ ہے۔ جس کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گیارہ کروڑ سے زائد ہے۔

چین، بھارت، امریکہ، انڈونیشیا، برازیل، نائجیریا، بنگلہ دیش، روس، میکسیکو، جاپان، ایتھوپیا اور فلپائن کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں پاکستانی صوبہ پنجاب سے زیادہ انسان بستے ہوں۔ یعنی دنیا کے باقی دو سو سے زائد ممالک کی آبادی پنجاب سے کم ہے۔

اس کا نام پانچ دریاؤں جہلم، چناب، راوی، ستلج اور بیاس کے پانیوں سے سیراب ہونے کی وجہ سے پنج آپ یعنی پانچ پانیوں کی سرزمین پنجاب کہلایا۔ انہی دریاؤں کے پانی سے یہاں سیلاب بھی ہمیشہ آبادی کو نقصان بھی پہنچاتے رہے مگر انہی کی بدولت یہ دنیا کا زرخیز ترین خطہ بنا۔ یہاں دنیا کی سب سے اعلیٰ معیار کی گندم، چاول، مکئی، کپاس، گنا سمیت خوراک و لباس میں استعمال ہونے والے درخت، فصلیں، جڑی بوٹیاں، جانور، پرندے اور کیڑے(جیسے ریشم کے کیڑے اور شہد کی مکھیاں) باکثرت پائے جاتے رہے جن کی بدولت کاغذی کرنسی کے نفاذ تک یہ دنیا کا امیر ترین خطہ رہا کیونکہ تب زرعی پیداوار اور مال مویشی ہی قیمتی ترین اثاثہ شمار ہوتے تھے۔ کاغذی مصنوعی کرنسی کے نفاذ کے بعد ایسے ممالک جہاں کھانے کو خوراک اور تن ڈھانپنے کیلئے لباس بھی میسر نہیں ہوتا تھا امیر ترین بن گئے اور ان کا ننگا پن فیشن بن گیا جبکہ زرخیز قدرتی دولت سے مالامال خطے کے باسی اپنی ساری زندگیاں، وسائل اور خدمات انہی مصنوعی امیر ممالک کی بھوک مٹانے اور اپنے بچوں کو ہر چیز سے ترسا ترسا کر محروم کرنے پر مامور ہو گئے۔ 

دیکھیں لباس کہاں سے آتا تھا؟ اس کیلئے سوت، ریشم اور چمڑا درکار ہوتا تھا جو کپاس کی فصل، سنبل کے درخت، ریشم کے کیڑوں اور جانورں کی کھال سے بنتا تھا اسی طرح خوراک کیلئے بنیادی درکار فصلیں، پھل وغیرہ اور جانوروں کی اکثریت یورپ میں نہیں تھی اسی قلت کے باعث یورپی شہری دبلے پتلے ہوتے تھے اور مختصر لباس استعمال کرتے تھے۔ جبکہ آج سے چار سو سال قبل براعظم آسٹریلیا اور ساڑھے پانچ سو سال قبل تک براعظم امریکہ دنیا کا حصہ ہی نہیں تھے اور براعظم انٹارکٹکا تو محض ڈیڑھ سو سال  قبل آشکار ہوا۔ یعنی باقی دنیا جو ایشیا، یورپ اور افریقہ کے براعظموں پر مشتمل تھی ان براعظموں سے نا واقف تھی اور براعظم ایشیا، یورپ اور افریقہ ہی کل کائنات تھے۔ دنیا بھر میں قحط آتے رہے مگر پنجاب میں رواں صدی کے آغاز سے قبل کوئی آزاد انسان، جانور یا پرندہ کبھی بھوک سے نہیں مرا تھا۔کیونکہ اگر کسی کے پاس کھانے کو روٹی یا تیار شدہ خوراک نا بھی ہو تو وہ درختوں اور پودوں کے میٹھے پتے کھا کر اور صاف پانی پی کر اپنی غذائی ضروریات پوری کرسکتا تھا۔ اسی طرح علاج مالجہ کیلئے ضروری جڑی بوٹیاں بھی یہاں کثرت سے پیدا ہوتی رہی۔ یہاں سے تاجر ادویات، خوراک و لباس دنیا بھر میں استعمال کیلئے ہزاروں سال سے پہنچاتے رہے اور اسی قدرتی دولت کی بدولت تمام دنیا سے سونے چاندی وغیرہ میں تجارت ہوتی رہی اور یہاں سونے چاندی کی بھی بھرمار ہو گئی۔ اسی لیے دنیا کا جو بھی حکمران تھوڑی سی طاقت پکڑتا پنجاب پر حملہ آور ہونے کیلئے چل پڑتا بہت سے راستہ میں ہی مختلف مقامات پر مقامی ریاستوں سے شکست کھا کر نیست و نابود ہو جاتے اور کئی اس سرزمین کو فتح کر کے یہاں کے وسائل لوٹ کر واپس روانہ ہو جاتے کچھ نے یہیں اپنا تخت لگایا جبکہ کئی کے فوجی یہاں کی زرخیزی دیکھ کر واپسی پر لشکروں سے بھاگ کر یہیں مستقل قیام بھی کر لیتے تھے۔

1947کی تقسیم ہند دراصل پنجاب اور بنگال کی تقسیم تھی جس کے باعث دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی جس میں بے گھر اور قتل ہونے والوں کی بڑی اکثریت پنجابیوں ہی کی تھی۔
اس ہجرت میں مختلف اعداد و شمار کیمطابق تئیس(23)سے بتیس(32)لاکھ پنجابی ایسے تھے اپنے ہنستے بستے گھر چھوڑ کر روانہ ہوئے اور منزل پر نا پہنچ سکے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی جبکہ ہندووں اور سکھوں کو ملا کر بھی ان کا نقصان مسلمانوں کی نسبت کافی کم تھا۔

پاکستان بننے کے بعد پنجاب مغربی پاکستان کا سب سے اہم خطہ تھا۔ 22 نومبر 1954 کو جب وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے ون یونٹ کا اعلان کیا تو اس کا مقصد مغربی پاکستان کے چار اور مشرقی پاکستان کے واحد صوبہ کے درمیان طاقت کا توازن  پیدا کرنا تھا۔ مگر جب اس کا قیام ہوا تو حکومتی طاقت کا مرکز لاہور بن گیا اور ہر برائی کا ذمہ دار پنجاب کو سمجھا جانے لگا اس سوچ کو تب توانائی ملی جب ایک فوجی آمر جنرل ایوب خان (جو برطانوی فوج کا افسر رہا تھا اور ہمیں ورثے میں ملا تھا) نے دارالخلافہ کراچی سے موجودہ پنجاب کے شہر راولپنڈی منتقل کر دیا۔

راولپڈی میں موجود برطانوی فوج سے ورثے میں ملے ناردرن کمانڈ ہیڈ کوراٹر کو پاکستانی فوج کا جنرل ہیڈ کوراٹر بننے اور ایوب خان کے آبائی علاقہ ہری پور سے قریب ہونے کی وجہ سے اس جگہ کا انتخاب کیا گیا۔

اسلام آباد کے نام سے جہاں نیا شہر بسایا گیا اور آج تک جس کی توسیع ہو رہی ہے اس سے لاکھوں قدرتی درخت کاٹ کر اور ہزاروں مارگلہ کی سرسبز پہاڑیوں کی بجری بنا کر قدرتی ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ اسلام آباد کے قیام سے پنجاب کا درجہ حرارت کم از کم دس ڈگری تک بڑھ گیا۔ جس کا ثبوت محکمہ زراعت کا 1960سے قبل کا تیار شدہ لٹریچر ہے۔ جو اب تک اشاعت ہو رہا ہے جس میں ربیع کی فصلوں کے کھیت میں شمال کی جانب سرکنڈا لگانے کی ہدایت کی جاتی تھی تاکہ شمال سے آنے والی سرد ہوائیں فصلوں کو نقصان نا پہنچائیں۔ یہ ہوائیں گلیشئیرز سے چل کر مارگلہ کی پہاڑیوں سے مزید آکسیجن لے کر یہاں سے گزرتی ہوئی پنجاب سے نیچے تک جاتی تھی۔ اب اوپر سے آنے والی آکسیجن سے بھرپور ہوائیں اسلام آباد، راولپنڈی کی آلودگی کا مقابلہ ہی نہیں کرسکتی اور وہیں ختم ہو جاتی ہیں اس سے آگے ان کی ٹھنڈک آنا ناممکن ہو گیا ہے۔

جنرل ایوب خان نے ہی جو فوج کے سربراہ بھی تھے 2 جنوری 1965 کو ہونے والے صدراتی انتخابات بزور طاقت کامیابی حاصل کر لی تھی۔ جس میں پنجاب کے علاوہ ملک بھر سے محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی۔ ان کے مقابلہ میں بنگال اور کراچی میں تو ایوب خان کے ووٹ کسی گنتی میں بھی نہیں تھے۔ 

ان انتخابات میں اسی ہزار کے قریب بنیادی جمہوریتوں کے اراکین نے ووٹ ڈالنے تھے۔ حتمی نتائج میں جنرل ایوب خان کو 49951 جبکہ محترمہ فاطمہ جناح کو 28691 ووٹ ملے۔ ان انتخابات میں ایوب خان اور فوج جیت گئی اور پاکستان ہار گیا جبکے ملک بھر کے عوام کی نفرت کا مرکز بھی پنجاب بن گیا حالانکہ جنرل ایوب خان کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا اور اس نے پنجاب کے تین دریا راوی، ستلج اور بیاس بھارت کو دے کر پنجاب کی زرخیز زمین کو بنجر کرنے کی بنیاد ڈال دی تھی اس فیصلے نے پنجاب کے انسانوں اور جانوروں سمیت یہاں کی زمین اور زراعت تباہ ہو گئی مگر پھر بھی ایوب خان کے دیگر کارناموں کا قصور وار پنجاب ہی ٹھہرایا گیا۔

رہی سہی کثر پنجاب کے شہر لاہور سے وجود پانے اور لاہور ہی میں اپنا مرکز رکھنے والی مذہبی سیاسی جماعت جماعت اسلامی کی جانب سے بنگال میں فوجی آپریشن کی حمایت میں مسلح گروپوں الشمس اور البدر بنا کر پوری کر دی۔ اس آپریشن کا نام آپریشن سرچ لائٹ تھا مگر نتیجہ صرف اندھیرا۔ 

پنجاب پر یہ بھی الزام ہے کے پنجاب گونگا ہے کیونکہ یہاں سے کبھی چھوٹے صوبے میں ہونے والے مظالم پر آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ بات کافی حد تک درست بھی ہے لیکن ان مظالم کے خلاف آج تک اٹھنے والی سب سے طاقتور اور لازوال آواز بلند کرنے والے حبیب جالب اور فیض احمد فیض پنجابی تھے ان کا تخلیق کردہ ادب اور سہی ہوئی صوبتیں تمام حریت پسندوں کیلئے مشعل راہ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کے پاکستان کے صاحب اختیار ظاہری و باطنی حکمرانوں نے ملک بھر میں عوام پر بدترین مظالم کئے بلکہ دہشت گردی کی۔ ان دہشت گردیوں کا شکار علاقوں میں فاٹا اور بلوچستان سرفہرست ہیں ان کیساتھ کراچی سمیت سندھ اور خیبرپختونخواہ میں بھی کوئی رعایت نہیں برتی گئی۔ مگر پنجاب میں ہونے والے مظالم نظر انداز ہوتے رہے۔ 

موجودہ پنجاب کے سرائیکی خطہ کے لوگوں پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر انہیں مارنا ثواب کا کام سمجھا گیا اور ان کیلئے کوئی آواز نہیں اٹھنے دی گئی۔

یہاں فرقہ واریت کا الزام بھی بڑا کارآمد رہا اور جس فرقہ کیخلاف کاروائیوں کا الزام لگایا گیا اسی فرقہ کے لوگوں کو بھی مار کر ان کے مخالفین سے بھاری رقوم وصول کی گئی۔

ذرا سوچیں کے جو پولیس یا فوجی افسر کچھ عرصہ کیلئے کسی دوسرے صوبہ میں تعینات ہو کر اتنے مظالم کرئے اس افسر نے جہاں اس نے اپنی جاگیر بنائی ہو وہاں اردگرد کے لوگوں کیساتھ وہ کیا کیا ظلم نہیں ڈھاتا ہوگا۔ 

جب قتل عام کیلئے ایک خصوصی ادارہ سی ٹی ڈی CTD کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا (جس کا اصل مطلب کریمنلز ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ ہے) اس ادارے نے کوئی دو ہزار جعلی پولیس مقابلے پنجاب میں کیے سب کی پریس ریلیز میں قتل ہونے والے دہشت گرد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔ مقتولین کی اکثریت پہلے سے ہی گرفتار افراد پر مشتمل تھی۔ صرف ایک مقابلہ کی ویڈیو سامنے آئی جو ساہیوال میں ہوا اور اس کی پریس ریلیز میں بھی مقتولین اپنے ہی ساتھیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے جبکہ سچ ساری دنیا نے دیکھا۔ سی ٹی ڈی کے قیام سے قبل پنجاب میں ایسا مقابلہ بھی ہوا جس کی خبر ٹی وی پر آئی تو اسی خبر کیمطابق جب دہشت گردوں کی تفصیل بتائی گئی تو ایک دس دن کا بچہ بھی دہشت گرد کے طور پر گنوایا گیا۔

ان موضوعات پر بات کرنا غداری ہے کیونکہ یہاں بزور طاقت ہر محب وطن کو غدار اور غدار کو محب وطن ثابت کر دیا جاتا ہے۔  ان تمام باتوں کا مقصد صرف یہ کہ ظالم طبقہ عوام میں مصنوعی تقسیم کرکہ نفرتیں پیدا کرتا ہے اور اپنی دوکان چلاتا ہے۔ اسی طرح کی تقسیم جب انگریز پیدا کر رہا تھا تب معروف پنجابی شاعر استاد دامن نے کہا تھا کہ انگ کا مطلب بھی ٹکڑا اور ریز کا مطلب بھی ٹکڑا اس لیے انگ ریز جب بھی کہیں گیا اس نے ٹکڑے ٹکڑے ہی سب کو کیا ہے اس نے جوڑا کبھی کسی کو نہیں۔ ہمارے یہاں ابتک انگریز ہی کے وفاداروں، احسان مندوں اور غلاموں کی اولاد کا راج ہے اور اس نسخہ(Divide & Rule) کا نتیجہ بھی ہمیشہ حسب منشا رہا خوب اس لیے تقسیم کرو اور حکومت کرو ہی پاکستان کا طریقہ حکومت ہے۔ 

جب تک ہم ان مذہبی فرقہ وارانہ اور لسانی تقاسیم کو نہیں سمجھیں گے تب تک زوال در زوال ہی ہوتے جائیں گے اور ہمارے صاحب اختیار عروج کی جانب سفر جاری رکھیں گے۔

اصل تقسیم کو سمجھنے کیلئے یہ اشعار کافی ہیں۔
ہندو میرا دشمن ہے نہ کوئی سکھ عیسائی
میرا دشمن ہر ظالم ہے چاہے میرا بھائی
انسانوں کی سب تقسیمیں ، جُز ظالم مظلوم 
بے معنی سی لگتی ہیں جب بات سمجھ میں آئی۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں