حکومتِ وقت اور ملکی سیاست! (شیخ خالد زاہد)

ہمارے ملک میں ہمیشہ آل پارٹیز کانفرنس ہوئی ہیں، آج تک کل جماعتی مذاکرہ نہیں ہوسکا، شائد یہی ایک وجہ رہی ہوگی کہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی کیونکہ جس زبان میں ہوتی ہے و ہ تو سمجھ ہی کسی کسی کو آتی ہے اور جسے سمجھ آتی اسے دوسری کوئی بات سمجھ نہیں آتی۔افسوس صد افسوس کہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دلوانے والوں کو خود ہی اردو نہیں آتی، بات تناظر سے تناظر کے درمیان ہی گھوم پھر کر چائے کی چسکیوں تک محدود اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے اور جانے والے جاتے ہوئے یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ آخر اس چائے میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ جس کیلئے آل پارٹیز کانفرنس رکھی گئی۔

گزشتہ روز یعنی بروز بدھ (۶۲ جون، ۹۱۰۲) کو ہمارے ملک کے انتہائی معزز اور ہر دلعزیز مولانا فضل الرحمن صاحب کی خواہش پر ایک بار پھرآل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔ بظاہر اس کامذاکرے (کانفرنس) کا مقصد حکومت وقت کو یہ پیغام پہنچانا تھا کہ ہم مخالفین آپس میں متفق ہیں اور ایک ہیں جب چاہیں حکومت کو ختم کرسکتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ پیغام نہیں تھا بلکہ اس بات پر ایک دوسرے کو راضی کرنا تھا کہ اگر میرے معاملات عوام کے سامنے آجائیں تو ذرا میری پشت پناہی کرنا۔یہ ہمارے ملک کے نام نہاد سیاستدانوں کی بیٹھک تھی جسے سماجی میڈیا پر کن کن لفظوں سے پذیرائی دی جارہی ہے۔ ایک انتہائی غیر سنجیدہ ماحول ملکی سیاست دانوں نے بنا رکھا ہے جس کی سب بڑی وجہ جھوٹ ہے جو یہ تمام کہ تمام تواتر سے بولے ہی چلے جا رہے ہیں۔

حکومت وقت سے قبل، حکومتی اراکین سوائے سرکاری فائدے اٹھانے کہ اور کیا کرتے تھے،ان عوامی نمائندگان کی اکثریت انتخابات میں جیسے تیسے منتخب ہوکر ایوان کی زینت اسی لئے بنتے رہے ہیں کہ وہ سرکار کے فراہم کردہ اور خود ساختہ سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اپنے پانچ سال خوب مال بنانے میں گزاریں انہیں اس بات کی بھی پروا نہیں ہوا کرتی تھی کہ انہیں کس بات کیلئے عوام نے ایوان میں بھیجا ہے۔ ہمارے لوگوں کی سیاسی تربیت،سیاست کو طاقت سمجھنے کی جیسی ہوتی ہے اور وہ جب ایوانوں تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں تو اپنی تربیت کہ عین مطابق کیا کچھ کرتے ہیں کسی پاکستانی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ موروثی سیاستدان عام آدمی کی طرز زندگی سے قطعی واقف نہیں ہوسکتے، انہیں یہ تو بتایا جاتا ہے کہ ملک کا قانون ہے لیکن تربیت میں اس قانون کی پاسداری کا کوئی سبق نہیں دیا جاتا اسلئے یہ نہیں جانتے قانون کیا ہوتا ہے۔

ایک سوال جوکہ حکومت تشکیل پانے سے بہت سارے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا حکومتِ وقت سیاست کر رہی ہے یا پھر ملک کو ٹھیک کرنے کی حتی الامکان کوشش؟جبکہ دوسری طرف دیکھیں تو جو گزشتہ تیس سالوں سے ایوانوں کے مزے لوٹتے رہے ہیں اور ایوانوں میں بیٹھ کا سیاست سیاست کھیلتے رہے ہیں آج بھی سیاست کرتے بڑے واضح دیکھائی دے رہے ہیں، قدرت نے انہیں ایسا واضح کردیا ہے کہ جیسے دودھ میں مکھی۔ بلاشبہ حکومت کینسر زدہ جسم کا ہر ممکن علاج کرنے میں پہلے دن سے مصروف ہے اور یہ ساری دنیا کو دیکھائی دے رہا ہے شائد سیاسی سچ بولنے والے مورخین یہ بتا سکیں کہ کبھی اس سے پہلے بھی کوئی ایسی حکومت آئی ہے یا کوئی ایسا وزیر اعظم آیا ہے جو بیرونِ ملک کے دوروں کو اسلئے خاطر میں نہیں لا رہے کیونکہ انہیں ملک کا، ووٹ دینے والوں کا شدید احساس ہے۔انہیں معلوم ہے عوام کو کبھی کچھ پتہ چلنے ہی نہیں دیا گیا کہ انکے پیسے کیساتھ کیا ہو رہا ہے ان کے دئے گئے ووٹوں کو کس طرح سے بیچا جاتا رہا ہے۔

بڑھتی ہوئی ہوشربا مہنگائی سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے، حکومت کو خود اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ مہنگائی اپنی حدوں کوپھلانگتی جا رہی ہے، عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوتی محسوس کی جارہی ہے، اس سب کے باوجود کیا وجہ ہے کہ عوام نے اپنے آپ کو حکومت وقت کو سونپا ہوا ہے کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ عوام اسطرح سے شکوہ کرتی نہیں سنائی دے رہی جیسی کہ ماضی میں سنی اور دیکھی جاتی رہی ہے۔ آج عوام کے سامنے وہ سب واضح ہوچکا ہے جو انکے اور ان سے پچھلی نسلوں کیساتھ ہوتا رہا ہے۔ آسان بات جو سمجھ آرہی ہے وہ یہ کہ سیاست کرنے والے آج بھی سیاسی رونقیں لگانے میں مصروف ہیں اور حکومت پاکستان کی بھرپور مرمت میں دن رات برسر پیکار ہے اور بہت جلد پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا اور دنیا ہمارے ساتھ کھڑے ہونے میں فخر محسوس کریگی۔ انشاء اللہ


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں