حضرت عمرؓ کا قول ہے “لا اسلام الاباالجماة” (اسلام کا کوئی تصور نہیں بغیر اجتماعیت کے) کے تحت جب جب ہم ایک قوم بنے، ایک جمیت بنے تب تب دنیا جہان کی کامیابیاں ہمارے قدموں میں آگریں لیکن جب جب ہم تفرقے میں پڑے ہم نے نقصان اُٹھائے خواہ تاتریوں کی بغداد پہ یلغار ہو، یا سلطنت عثماعنیہ کا خاتمہ اور اس کے نتیجے میں ناجائز ریاست کا قیام یا پھر مشرقی پاکستان کا سانحہ اور موجودہ بحرانوں کا سامنا سب اسی تفرقے کا نتیجہ ہے اسی پس منظر میں امریکی مفکرین کہتے ہیں
“We are not against islam, we are not going to war against islam, we want war within islam”
کیا آج ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا؟ عراق سے لیکر لیبیا تک، شام سے یمن تک آپسی لڑائی سے تباہی کا شکار ہوے۔ مخفی ہاتھوں نے چند آلہ کار خرید کر تھوڑا پروپیگنڈہ کیا کچھ سازش رچی یوں صدیوں سے ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن گئے نتیجتاً ہنستے بستے ملک کے ملک تباہ ہوگئے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے کروڑہا بےگھر ہوے۔
ایسی ایسی رپورٹیں سامنے آچکی ہیں کہ سن کر دل دہل جائے معصوم ٹین ایجرز بچیوں کو پورنوگرافی اور سیکس ورکر کے طور پہ استعمال کیا جارہا ہے عزت دار خواتین روٹی کے عوض جسم بیچنے پہ مجبور ہیں۔
بالکل اسی سازش کے تحت سعودی عرب اور بحرین کے لیے بھی تباہی کا سامان کرلیا گیا تھا مگر پاکستان آرمی کی کاوشوں سے دشمن اس میں ناکام رہا اس کے علاوہ ترکی پر مختلف مذموم طریق اپنائے گئے لیکن ترک قوم نے غیرت و حمیت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوے دشمن اور اسکے آلہ کاروں کے سامنے ڈٹ گئی یہ تھی اجتماعیت کی برکات، اس پس منظر میں اگر بغور مشاہدہ کریں تو پاکستان میں خانہ جنگی کروانے فتنہ فساد بپا کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی گئیں جن کو ملکی سلامتی اداروں نے ہر بار ناکام بنایا۔
کراچی میں ایک ماتمی جلوس میں دھماکے کے ردعمل کے طور پہ منظم طریقے سے مارکیٹوں کی مارکیٹوں کو آگ کی نذر کر دیا گیا اور ہوا دی جاتی رہی کہ سنیوں کی مارکیٹوں کو شیعہ نے جلادیا یہ سب کیا تھا؟ اسی سلسلے کی ایک کڑی سانحہ راجہ بازار راولپنڈی جب مقررہ وقت سے بہت پہلے ہی ایک ماتمی جلوس نماز جمعہ کے وقت مسجد کے گیٹ پر پہنچ جاتا ہے اور منظم طریقے سے اشتعال انگیزی کے بعد بہت سے افراد کو شہید کر دیا جاتا ہے تو ساتھ ہی سوشل میڈیا پہ شیعہ سنی منافرت کی مہم پوری آب و تاب کے ساتھ چلائی جاتی ہے جسکے ردعمل میں پنجاب کے کئی شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے یہاں تک کہ کچھ علاقوں میں کرفیو تک کا نفاذ کرنا پڑا۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ مسجد پر حملہ آور اسی مسلک سے تعلق رکھتے تھے جس مسلک کی یہ مسجد تھی۔ بہرحال دشمن کی یہ ساش ناکام ہوئی۔
کراچی میں لسانی بنیادوں پہ ٹارگٹ کلنگ کی لہر پہ غور کریں کس طرح منظم انداز میں اٹھی اسکے علاوہ کچھ دن پہلے ہی کی بات ہے سندھ میں دو افراد کے ذاتی تنازعے کو کس طرح منظم طور پہ لسانی رنگ دینے کی کوشش کی گئی لاڑکانہ میں تین مزدور پشتون اس سازش کا نشانہ بنائے گئے اس کے علاوہ ایک مخصوص میڈیا گروپ کی سرگرمیوں پہ غور کریں جو متواتر کیساتھ ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈے اور مذہبی و لسانی منافرت پھیلانے میں پیش پیش ملے گا۔
ایک طرف تو امن کی آشا کے نام پہ بھارت کے لیے لوگوں کے دلوں میں نرم گوشہ کی راہ ہموار کرتا رہا تو دوسری طرف بلوچوں کو بجائے صبر و امن کی تلقین کرنے کے نام نہاد تاریخ بتابتا کر اور محرومیوں کے نام پہ بلوچوں کو اکساتا رہا تو کبھی شیعہ حضرات کو سنیوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی ترغیب دیتا رہا صرف یک رخی تصویر دکھانا کہ صرف شیعہ نشانہ بن رہے ہیں کا کیا مطلب؟ جبکہ سنی بھی بڑے پیمانے پہ دہشتگردی کا شکار ہو چکے ہیں اس کے علاوہ ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈے کا سہرا بھی انہی کے سر سجتا ہے۔
غور طلب بات ہے یوں تو پاکستان میں ہزاروں افراد قتل ہوے ہونگے مگر ایک نقیب اللہ محسود شہید کیا جاتا ہے ٹویٹر ٹرینڈ بنتا ہے جس کے بعد اس واقعے کو بہت زیادہ ہائی لائٹ کیا گیا اور اسے ریاستی جبر سے تعبیر کرکے دکھایا جاتا رہا جسکی آڑ لیکر پی ٹی ایم کو کھڑا کردیا گیا جو شروع تو نقیب اللہ محسود کا نام لیکر ہوے اور دیکھتے ہی دیکھتے ملکی سلامتی اداروں کے خلاف سرگرم ہوگئے جو فوج کے خلاف نہ صرف پروپیگنڈہ بلکہ غیور پشتون بھائیوں کو ریاست سے بغاوت پہ اکساتے پھر رہے ہیں۔
خرقمر چیک پوسٹ کا واقعہ بھی اسی سازش کی ایک کڑی تھی اس سے پیشتر علی وزیر اپنے خطابات میں اشتعال انگیزی بھی کرتے رہے ہیں “فوجیو ہم تم سے لڑینگے ہم تم سے بدلہ لینگے” اس قسم کے دیگر بہت سے رہنما بھی تقریریں کرتے نظر آئے ہیں اور پروپیگنڈہ کرنے میں ہر سطح پہ جارہے ہیں جس کا واحد مقصد صرف پاکستان میں خانہ جنگی کروانا غریب پشتونوں کو ایک نئی جنگ کی نذر کرنا ہے۔
امریکی مفکرین کے جملے we want war within Islam کے تحت پی ٹی ایم کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو سارس کھیل روز روشن کی طرح واضح نظر آرہا ہے غور طلب بات ہے کہ ان کا ہدف صرف پاک فوج ہی کیوں ہے وہ بھی عین اس وقت جب دہشتگردوں کا صفایا کیا جاچکا، کل تک جو بھی ظلم و بربریت کے جو بھی کام دہشتگردوں نے کیے وہ سارے کے سارے پاک فوج کے کھاتے میں ڈال کر دہشتگردوں کو کلین چٹ دینے کے پیچھے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں؟ کل تک پشتون قوم کو اپنے اسلاف کی میراث پہ فخر تھا غوری ابدالی غزنوی وغیرہ کو اسلامی ہیرو جانا جاتا ہے اسی لیے آج پاکستان کے میزائل تک کے نام غزنوی ابدالی غوری ہیں مگر پی ٹی ایم اسلامی دنیا کے ان عظیم مجاہدوں کو لسانیت کی شکل دینے پہ کیوں تلی ہے؟ پشتونوں نے شروع سے ہی اسلام کا نام روشن کیا ہے جہاد ان کے اسلاف کی میراث ہے مگر یہ ٹولہ جہاد کیخلاف کیوں پروپیگنڈہ کررہا ہے؟ پشتونوں کی تاریخ رہی ہے وہ کبھی کسی کے سامنے جھکے نہیں مگر یہ ٹولہ پشتون روایات و اقدار کے برخلاف مغرب کے سامنے سجدہ ریز کیوں ہے؟ جنیوا میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے تو پہنچ رہے ہیں مگر اس جنیوا کو اس ٹولے کو افغانستان میں پشتونوں پہ ہونیوالا امریکی بھارتی اسرائیلی و انکے آلہ کاروں کا ظلم کیوں نظر نہیں آتا؟ درحقیقت بات وہیں آکر ٹھہرتی ہے جس طرح لیبیا یمن وغیرہ میں آگ لگائی گئی اسی طرح ایسے آلہ کار پاکستانی عوام کو خانہ جنگی کا شکار کرنا چاہتے ہیں اس وقت ہماری زمہ داری ہے کہ من حیث القوم اجتماعی طور پہ ایسے آلہ کاروں کو بےنقاب کرکے انہیں مایوسی کی گہری کھائیوں کا سامان کردیں اجتماعیت میں ہی ہماری بہتری ہے۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔