ستر سال گزرنے کے باوجود ہم ایک قوم نہیں بن پائے، لوگوں میں احساس محرومی کی بدولت صوبائیت اور لسانیت کا عنصر بجائے گھٹنے کے بڑھتا ہی جاتا ہے ایک فتنے سے جان چھوٹتی ہے تو دشمن دوسرے فتنے کو جنم دے دیتا ہے ہماری آدھی سے زیادہ توجہ و توانائی ایسے فتنوں کو رفوع کرنے میں گزر جاتی ہے اسی لیے وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پاکستان ترقی کی راہ پر نہیں چڑھ سکا کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی میں تعلیم سب سے اہم ہوتی ہے بقول نیلسن منڈیلا ” تعلیم وہ طاقتور ہتھیار ہے جس سے انسان دنیا بدل سکتا ہے”۔
افسوس المیہ یہ ہے کہ UN کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پرائمری تعلیم میں دنیا سے 50 سال اور سیکنڈری تعلیم میں 60 سال پیچھے ہے لیکن ہمارے بے حس سیاستدان آنکھیں بند کیے ہوے ہیں تعلیمی دہشتگردی اپنے عروج پہ ہے شرح خواندگی کے حساب سے ورلڈ ایٹلس سوسائٹی کی جاری کردہ رینکنگ کے مطابق پاکستان یوگنڈہ، سوڈان، کانگو و دیگر کئی افریقی پسماندہ ملکوں سے بھی پیچھے ہے پاکستان کا لٹریسی ریٹ 57 فیصد ہے جس میں ان افراد کو بھی شمار کیا گیا ہے جو لکھ یا پڑھ سکتے ہیں حقیقتاً تعلیمی معیار کا کوئی پرسان حال نہیں،
آئین پاکستان کی رو سے ” ناخواندگی کا خاتمہ ریاست کی زمہ داری ہے اور ثانوی تعلیم مفت و لازمی ہے” مگر تعلیمی دہشتگرد اور انکے سرپرست بے حس سیاستدان ریاست و آئین سے زیادہ طاقتور ہیں جنہوں نے تعلیم کو کئی اقسام میں تبدیل کردیا ہے ایک پرائیویٹ اسکول سسٹم دوسرا سرکاری اسکول سسٹم مزید یہ کہ نصابی تقسیم میں ڈال دیا گیا ہے۔
یونیسکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تعلیم کے قابل بچوں کی تعداد 50158104 ہے اور ان میں سے 37 فیصد بچے آوٹ آف اسکول چلڈرن ہیں یعنی کہ تقریباً دو کروڑ بچے اسکول کا منہ ہی نہیں دیکھتے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے مستقبل کے معماروں کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے ہی قتل کردیا، اتنے بڑے پیمانے پہ تعلیمی قتل اور بے حس سیاستدانوں و نام نہاد دانشوڑوں کو بغلیں بجانے سے فرصت نہیں۔ ان بچوں کی بڑی تعداد کا تعلق سندھ بلوچستان سے ہے جبکہ پنجاب و خیبرپختونخواہ کی پوزیشن اس سے بہتر ہے سندھ میں نئے آنے والے IBA ہیڈماسٹرز کو آوٹ آف اسکول چلڈرن کے لیے گلی گلی مہم چلانے پر ضرور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے لیکن تعلیمی دہشتگرد الٹا ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے نظر آتے ہیں
اگر بغور جائزہ لیا جائے تعلیمی معیار کے حساب سے پنجاب و خیبرپختونخواہ کا معیار سندھ بلوچستان سے بہت بہتر ہے جسکی وجہ سے سندھ بلوچستان کے نوجوان مختلف مقابلہ جاتی امتحانات، پرائویٹ کمپنیوں، دیگر تکنیکی پوسٹوں و دیگر اہم سرکاری اداروں میں اہم پوسٹوں پر پنجاب کے نوجوانوں کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں اس کے علاوہ علم و آگہی کے فقدان کی وجہ سے سندھ بلوچستان کی عوام زراعت و لائیواسٹاک سے اتنا فائدہ نہیں اٹھا پاتے جتنا کہ پنجاب اور وڈیروں کی اوطاق کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں سندھ گھریلو دستکاریوں کا مرکز رہا ہے مگر علم و شعور کی کمی کی وجہ سے اس صنعت سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا اس صورتحال کا فائدہ اٹھاکر کچھ مفاد پرست اور ملک دشمن صوبائیت و لسانیت کو ابھار کر پاکستان کی نظریاتی اساس پہ حملہ آور ہوجاتے ہیں نتیجتاً یہ تاثر عام ہوگیا کہ پنجاب کو زیادہ نوازا جاتا ہے فوج اس کی زمہ دار ہے وغیرہ وغیرہ جبکہ اصل مجرم تعلیمی دہشتگرد ہیں جو کوئی اور نہیں بلکہ محکمہ ہی کے کلرک افسران گھوسٹ اساتذہ ہیں جس کا انکشاف وزیرتعلیم سے سیکریٹری تعلیم تک کرچکے ہیں ماضی میں ایک طرف تو سندھ سیاسی بھرتیوں کا مرکز رہا جبکہ اس سے بڑھ کر تعلیمی دہشتگردوں نے کھانچہ بھرتیاں کیں، کھانچہ بھرتی سے مراد پیسے لیکر اندر ہی اندر کسی مرے ہوے ریٹائر یا چھوڑجانے والے ملازم کی جگہ کسی کو بھرتی کردینا یا پھر اوپر سے لسٹ ڈیڑھ سو افراد کی آتی تو یہ مافیا ڈیڑھ ہزار بھرتی کردیتے، حیران ہونگے کہ حالیہ ریٹائر ہونے والوں میں ایسے ایسے کیسز سامنے آئے کہ عمر 37 سال یا چالیس سال اور وہ 27 سال سروس کرکے ریٹائر ہوگئے اس کے علاوہ بہت سارے ملازمین کی سروس دیکھی جائے تو پتہ چلے گا کہ وہ دس سال کی عمر میں ٹیچر بھرتی ہوگیا، گھوسٹ ہونا تو بعد کی بات ہے جو ٹیچر حاضر ہوتے ہیں انکی بڑی اکثریت پڑھانے سے ہی قاصر ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ انہیں خود تعلیم کی اشد ضرورت ہے، IBA ہیڈماسٹرز کی بھرتی سے پہلے سندھ میں سپروائزر سسٹم ہوا کرتا تھا دلچسپ بات یہ کہ سپروائزر کی پوسٹ کی محکمہ میں کوئی قانونی حیثیت یا وجود نہیں تھا لیکن وہ سیاسی بنیاد پہ سپروائزر لگ جایا کرتے تھے ہر یوسی پر ایک سپروائزر تعینات ہوتا جس کا کام ملازمین کو منتھلی پر چھوڑ کر اوپر کا مال بنانا ہوتا تھا یہ تعلیمی دہشتگرد علاقائی بااثر شخصیت کے لیے اس لیے اہم تھے یا ہیں ایک تو یہ ان کی اوطاق کا پورا خرچ چلاتے ہیں دوسرا الیکشن سے لیکر جلسوں کا خرچ اور اس سے بڑھ کر الیکشن میں ٹیکنیکل دھاندلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں یہی تو بات ہے جس پر ممبر اسمبلی رابعہ اظفر نظامانی سندھ اسمبلی کے فلور پہ نوحہ کناں نظر آئیں ” IBA ہیڈماسٹرز دیانتداری و فرض شناسی کے باوجود پریشان ہیں ریگیولرائز نہیں کیے جارہے جبکہ گھوسٹ اور تعلیمی دہشتگردوں کو 20 گریڈ دیدیا گیا” حیرانگی کی بات ہے محکمہ تعلیم سندھ میں 17 اسکیل میں ڈائریکٹ بھرتی کا تناسب نہ ہونے کے مترادف ہے اور ہزارہا لوگ پروموٹ ہوجاتے ہیں یوں محکمہ تعلیم ان تعلیمی دہشتگردوں کے ہاتھوں ہی یرغمال ہے ایک لمحے کو محکمہ کی ویب سائٹ پہ جاکر چیک کریں تو پتہ چلے گا کس طرح سیاسی بنیادوں پہ لوگ TEO اور DEO لگتے ہیں ایسے میں یہ تعلیمی دہشتگرد نہ صرف ادارے پہ اثرانداز ہورہے ہیں بلکہ پاکستان کی نظریاتی اساس کو ان کی پیدا کردہ احساس محرومی سے خطرہ ہے جسکا فائدہ اٹھاکر دشمن بآسانی صوبائیت و لسانیت کو ابھار لیتا ہے اللہ اللہ کرکے میرٹ پہ IBA ہیڈماسٹرز اور دیگر ٹیچرز بھرتی ہوگئے تو وہ بھی ان سے برداشت نہیں لہٰذا حکومت اور تمام محب وطن پاکستانیوں کو تعلیمی دہشتگردی کو اول فرصت میں روکنا چاہئیے تاکہ ہم ایک قوم بننے کے خواب کو تعبیر ہوتا دیکھ سکیں۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔