صبر و تحمل اور برداشت! (میر افضل خان طوری)

انسان کی سب سے بڑی قوت قوت برداشت ہے۔ انسان کی اصل طاقت کا اندازہ اس کے قوت برداشت سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس انسان میں تکالیف اور مصائب کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے وہ دنیا میں ہمیشہ بہت بڑی قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ صبر و تحمل انسان کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ صبر و تحمل سے کام لینے والا انسان کبھی شکست نہیں کھا سکتا۔

مولانا روم اپنی مثنوی میں اس حوالے سے بہت خوبصورت واقعہ نقل کرتے ہے” وہ فرماتے ہیں کہ بنوت سے قبل حضرت موسی علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام کے ہاں بکریاں چرایا کرتے تھے۔ ایک دن ایک بکری ریوڑ سے الگ ہو کر کہیں کھو گئی۔ حضرت موسی علیہ السلام جنگل میں آگے پیچھے تلاش کرتے کرتے بہت دور نکل گئے۔ اس سے آپ علیہ السلام کے پاوں مبارک پر ورم آگئے اور زخمی بھی ہوگئے۔ بکری تھک ہار کر ایک جگہ کھڑی ہوگئی تب جا کر حضرت موسی علیہ السلام کے ہاتھ آئی۔ آپ علیہ السلام نے اس پر بجائے غصہ اور زدوکوب کرنے کے اس کی گرد جھاڑی اور اس کی پشت اور سر پر ہاتھ پھیرنے لگے، ماں کی ممتا کی طرح اس سے پیار کرنے لگے۔ باوجود اس قدر اذیت برداشت کرنے کے ذرہ برابر بھی اس پر کدورت اور غیط و غضب نہ کیا بلکہ اس کی تکلیف کو دیکھ کر آپ کا دل رقیق ہو گیا اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بکری سے کہنے لگے ” فرض کیا تجھ کو مجھ پر رحم نہیں آیا، اس لئے تو نے مجھے تھکایا اور پریشان کیا۔ لیکن تجھے اپنے اوپر رحم کیوں نہیں آیا۔ میرے پاوں کے آبلوں اور زخموں پر تجھے رحم نہ آیا۔ کم از کم تجھے اپنے اوپر تو رحم آنا چاہئے تھا”۔

اسی وقت ملائکہ سے حق تعالی نے فرمایا کہ نبوت کیلئے حضرت موسی علیہ السلام زیبا ہیں۔ امت کا غم کھانے اور ان کی طرف سے ایزارسانی کے تحمل کیلئے جس حوصلے اور دل و جگر کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ خوبی ان میں موجود ہے”۔
صبر میں اگر اخلاص موجود ہو تو انسان کی روح کو شفافیت ملتی ہے۔ ایک متحمل مزاج آدمی ہی جذبہ تخلیق سے آراستہ ہوتا ہے۔ اسکے برعکس عدم برداشت آدمی کی تخلیقی صلاحیتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
ذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ( 134 ) آل عمران – الآية 134
جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتےہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے۔

عدم برداشت اور بے صبری یقین اور اطمینان کی قوتوں کو ختم کر دیتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ لوگ دل برداشتہ ہو کر بڑے بڑے جرائم کے مرتکب ہو جاتے ہیں ۔ معمولی معمولی باتوں پر لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔بہت سے لوگ عدم برداشت کی وجہ سے اپنی جان کا خاتمہ بھی کر دیتے ہیں۔

برداشت اور تحمل نئی امیدوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ امید اور یقین کی قوت سے ہی انسانی معاشرے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ برداشت معاشرتی ترقی اور رواداری کی نئی راہیں کھول دیتی ہے۔

اس وقت پاکستانی معاشرے کو سب سے زیادہ ضرورت صبر و تحمل اور برداشت کی ہے۔ صبر و تحمل ہی ہمارے امن و سکون اور معاشرتی ترقی کا ضامن ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں