بدعنوانی کیا ہے! (شیخ خالد زاہد)

یوں تو لفظ بدعنوان اردو میں ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی غیر اہم رہا (جسکا مقامی سیاستدانوں نے خوب فائدہ اٹھایا)جبکہ لفظ کرپٹ یا کرپشن جو انگریزی میں بدعنوان کیلئے استعمال ہوتا ہے کافی عام فہم ہے اور بخوبی جاناپہچانا جاتا ہے، ہم اردو کی ترویج کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے لفظ بدعنوان استعمال کرینگے۔اس لفظ کو بھی انگریزی میں عام کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انگریزی میں کچھ بھی کہا جائے اسے احترام بھلا ناہی سنا جائے کسی پر کوئی فرق نہیں پڑتا، یعنی سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی، معاشرے اپنی زبان میں پرورش نا پائیں تو بے زبان اور بے عنوان رہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی کا تو ہر لفظ ہی متاثر کن ہے چاہے وہ ہتک عزت ہی کیوں نا کر رہا ہو۔ پاکستانی عوام کو جو سمجھنا تھا وہ آج تک سمجھنے کی کوشش نہیں کررہی اورجو کچھ غیر ضروری ہے وہ سب سمجھ کر بیٹھی ہوئی ہے۔ قومی زبان کے نفاذ کو ہمیشہ کیوں پسِ پشت رکھا گیا ہے اسکی وجوہات جہاں اور بہت ساری ہیں، ان میں سے ایک اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ اسطرح سے قوم کو بیوقوف بناکے رکھا جائے۔ ہم ہر مضمون میں اپنی قومی زبان کی ترویج کیلئے اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں اور ہینگے، یہاں تک کہ ہمارا معاشرہ اپنی زبان سمجھنا نا شروع کردے۔

 ہمیشہ صحیح راستے پر رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں جسکی وجہ سے ہم متبادل راستہ نکالتے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ راستہ بدل کر منزل پر پہنچا جائے۔ سوال یہ ہے کہ صحیح راست صحیح کیوں نہیں رکھا جاتا؟کیوں عوام کو مشکل میں دھکیل دیا جاتا ہے؟کیوں انہیں متبادل راستہ دیکھایا جاتا ہے؟ایک طرف تو ہم قطار میں کھڑا ہونا نہیں چاہتے اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ لمبی قطار سے ہوتا ہوا ایک شخص متعلقہ کھڑکی یا فرد تک پہنچتا ہے تو وہاں اسے کسی نا کسی ایسے اعتراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسکے کیلئے متبادل طریقہ استعمال کرنا ہی پڑتا ہے۔دنیا نے ترقی کیلئے قطاروں سے جان چھڑائی یعنی سب کچھ ڈیجیٹلائز (معذرت اردو میں بہت مشکل ترجمہ ہے اس لفظ کا)کردیا۔ انسانی ہاتھ کا استعمال سوائے پلاسٹک کے کارڈز کو سوائپ کرنے کہ اور کچھ نہیں رہا ہے اس طرح سے وہاں بدعنوانی یا متبادل راستے کے چناؤ کا معاملہ ہی ختم کردیا ہے۔ آخر ہمارے پاس ایسا کیا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی قطار میں کھڑا ہونا نہیں چاہتا، جبکہ بغیر صف بندی کے رب کی رضابھی نہیں ملتی۔یہاں بات امیر یا غریب کی نہیں یہ معاملہ ہر پاکستانی میں بتدریج یکساں مناسبت سے پایا جاتا ہے۔ہم نے مانا کہ پیسے والے کو اپنے پیسے کا گھمنڈ ہوتا ہے لیکن ایک متوسط طبقے یا اس سے بھی کم یعنی تیسرے درجے کا پاکستانی بھی قطار میں لگنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ پیسے والے اس لئے قطار میں نہیں لگتے کے کیا وہ ان غریب لوگوں کیساتھ جن کے پاس سے محنت کے پسینے کی بو آرہی ہے ساتھ کھڑے ہونگے۔ بارہا قطار میں لگنے کے معاملے پر لکھ چکا ہوں لیکن یہ دکھ ہر روز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جبکہ ہوائی اڈوں پر اب کچھ انتہائی اہم لوگ قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔بہت چھوٹی چھوٹی بدعنوانیاں ہمارے معاشرے میں عام ہیں اور ہماری نسلیں اس بدعنوانیوں کے سائے میں ہی پرورش پا رہی ہے۔ راستے میں چلتے پھرتے کہیں بھی کچرے کا پھینک دینا، گھرپر ہوتے ہوئے بچوں سے کہلوادینا کہ گھر پر نہیں ہیں، اسکول کی چھٹی کیلئے بہت پیار سے بچے کو کہہ دینا کہ ہماری نانی ہسپتال میں تھیں تو دیکھنے گئے ہوئے تھے یہ وہ روزمرہ کی باتیں ہیں جو بچے بڑوں سے معمول کیمطابق سنتے ہیں اسطرح سے بدعنوانی کا بیج معصوم بچوں کے ذہنوں میں بو دیا جاتاہے۔ 

یہ ہم سب جانتے ہیں کہ قطار کا بد عنوانی سے گہرا تعلق ہے، ٹرین کا ٹکٹ لینے جائیں ایک لمبی قطار دیکھ کر فوراً کسی دوسرے ذرائع کی تلاش میں نظریں ادھر ادھر گھومنا شروع ہوجاتی ہیں اور شکر میسر آہی جاتی ہے کچھ اضافی رقم دے کر بغیر قطار میں لگے کچھ کم وقت میں ٹکٹ ہوجاتی ہے اور بڑے فخر سے وہاں سے نکل جاتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے بدعنوانی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ دراصل بدعنوانی قطار میں نا کھڑے ہونے والوں کی وجہ سے ہی پھلتی پھولتی ہے۔ قطار کو لمبا رکھنے میں اس عملے کا بھی کچھ ہاتھ ہوتا ہے جو اندر بیٹھا کام کررہاہوتا ہے، جو بدعنوانی کے اسباب پیدا کررہا ہوتا ہے۔

پاکستانی بد عنوانی نے کرکٹ ٹیم کا پیچھا عالمی مقابلوں میں بھی نہیں چھوڑا ہے جس کا احوال خود سمجھنا پڑیگا، گزشتہ کل انگلینڈ اور نیوزیلینڈ کا میچ تھا جسکاانگلینڈ کا جیتنا سیمی فائنل تک رسائی کیلئے ضروری تھا جبکہ نیوزی لینڈ کا جیتنا سوائے پاکستان کی امیدوں کو زندہ رکھنے کے اور کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا، انگلینڈ نے یہ میچ باآسانی جیت لیا بلکل ویسے ہی جیسے انگلینڈ بھارت کیخلاف جیتا تھا۔ اس میچ کی سب سے خاص بات یہ نہیں تھی کہ کون جیتا یا کون ہارا بلکہ یہ بات اہم تھی کہ پاکستان کا عالمی مقابلوں میں سفر تمام ہوگیا۔ اب پاکستان کیلئے بنگلادیش سے میچ سوائے ضابطے کی کاروائی کے اور کچھ نہیں رہا۔ ابھی ایک پیغام موصول ہوا ہے یہ جس میں لکھا ہے کہ ۲۹۹۱ کی تو تمام نشانیاں پوری ہوچکیں اب اگر پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ جاتا ہے تو یہ سوائے قیامت کی نشانی کے اور کچھ بھی نہیں ہوگا۔ پاکستان اپنا ابتدائی میچ ویسٹ انڈیز سے تھا جوکہ غیر متوقع طور پر پاکستان اتنی بری طرح سے ہارا کہ اسکی اوسط اتنی بری طرح سے متاثر ہوئی کہ آخری میچ تک درست نہیں ہوسکی گوکہ پاکستان کو قدرت نے اس اوسط کو بہتر کرنے کہ مواقع فراہم کئے جوکہ پاکستان نے اپنی نااہلی کی بدولت گنوادئیے، اب قسمت کی دیوی باربار تو مہربان نہیں ہوتی۔یہاں ہمارے منیر نیازی صاحب کا پنجابی زبان میں کہا گیا ایک شعر بے ساختہ اچھلتا کودتا دیکھائی دے رہا ہے جوکچھ یوں ہے 

کج شہر دے لوک وی ظالم سن

کج سانوں مرن دا شوق وی سی

ہمیں اپنے اسکولوں مدرسوں اور تمام تعلیمی اداروں میں چھوٹی چھوٹی بدعنوانیوں کے متعلق اپنی نئی نسل کو آگاہ کرنا ہوگااور عملی طور پر ان سے بچتے رہنا کا ثبوت بھی پیش کرنا ہوگا۔ اللہ کے نزدیک بدعنوانی بدعنوانی ہے چھوٹی یا بڑی نہیں۔ ہمیں ان بدعنوانوں سے کچھ نہیں لینا جو اپنے کئے کی سزا بھگت رہے ہیں اور اگلے جہان میں بھی بھگتینگے۔ ہمیں تو بس اپنی آنے والی نسل کی فکر ہے کہ انہیں اردو میں بولا جانے والا لفظ بدعنوان سمجھ آنے لگے باقی وہ خود ہی سنبھال لینگے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں