دیوانے کا خواب! (انشال راؤ)

قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد “پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی” کے مصداق پاکستان زوال پذیری کا شکار ہوتا گیا ہر دور ہر حکومت میں ایک ہی بات سنائی دی ‘پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے’ گویا یہ قومی جملہ بن کے رہ گیا ہے اور نجانے کب تک یہ جملہ پاکستانیوں کے مقدر سے جڑا رہے گا اس میں کوئی دو رائے نہیں پاکستان ہمیشہ سیاسی عدم استحکام، معاشی کمزوری، لاقانونیت و بدامنی کا شکار رہا ہے نظام انصاف مفلوج ہے میرٹ، اخوت و بھائی چارہ، مساوات و آزادی سرے سے ہی لاپتہ ہیں اس کے کیا اسباب ہیں یہ ایک الگ بات ہے مگر بحیثیت مجموعی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور اب تک کی تمام حکومتیں بشمول طاقتور مقتدر حلقے اس کے زمہ دار اور مجرم ہیں کہ کسی فرد واحد نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی نتیجتاً بحیثیت مجموعی پوری قوم زوال کا شکار ہے اس کی تین بڑی وجوہات ہیں جن میں قانون کا عدم نفاذ سرفہرست ہے دوسری وجہ نفاق باہمی ہے کبھی ہم ایک قوم تھے اب قومیتوں میں تحلیل ہیں ایک طرف صوبائی عصبیت، علاقائی عصبیت، لسانی عصبیت تو دوسری طرف مذہبی اختلافات ہیں۔ تیسری وجہ یہ کہ ہمارے ہاں عملی و اخلاقی فقدان ہے اخلاقی اقداروں کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔

حدیث نبویؐ ہے کہ ” منافق کی تین بڑی نشانیاں ہیں جب بولے جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے” ایک اور حدیث میں ہے کہ “اگر جھگڑا ہوجائے تو فوراً آپے سے باہر ہوجائے” ان چاروں نشانیوں کے حوالے سے ہمارے معاشرے کو دیکھیں جو جتنے بڑے مقام پہ ہے اتنا ہی بڑا جھوٹا اتنا ہی بڑا وعدہ خلاف اتنا ہی بڑا خائن ہے لوگ اربوں کھربوں ہڑپ کرگئے کوئی شرمندگی نہیں ہماری بیوروکریسی اور سیاستدانوں نے ملک کو لوٹ لوٹ کر کچومر نکال دیا ہے اور ڈھٹائی سے ٹی وی پہ بیٹھ کر کہتے ہیں ہمارے خلاف ثبوت پیش کرو جبکہ اصول یہ بنتا ہے کہ انہوں نے جواب دینا ہے کہ اتنا مال کیسے بنایا اور اگر سوال کرلیا جائے تو کہتے ہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لڑائی جھگڑے قانون کو ہاتھ میں لینا طاقت کے نشے میں قانون سے کھیلواڑ روزمرہ کا معمول ہے اس وقت دنیا کا یہ واحد معاشرہ ہے جہاں انسانی جان کی قیمت مکھی یا مچھر کی جان سے زیادہ نہیں ہے اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو دوسری اور تیسری وجہ کے سرایت کرنے میں پہلی وجہ ہی بنیاد ہے اگر پاکستان میں قانون کا عملی نفاذ اس کی رو کے مطابق ہوجائے تو ازخود ختم ہوجائیں عام آدمی کی عزت نفس بھی بحال ہوجائے اور ہم ایک قوم بھی بن جائیں گے قانون کا نفاذ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں مگر معاملہ نیتوں کا ہے کوئی چاہتا ہی نہیں کسی کو غرض ہی نہیں کہ قانون کی عملداری ہو قدرت نے بے تحاشہ موقعے دئیے مگر کسی کو اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں یا منافقت اس کے نفاذ کے آڑے آجاتی ہے مثال کے طور پر شاہ رخ جتوئی کیس کو لیجئے طاقت کے نشے میں سرعام ایک بےقصور نوجوان شاہ ذیب کو قتل کردیتا ہے جس پر پوری قوم ایک طرف ہوگئی مگر عدلیہ قوم سے کھیلتی رہی اور Justice Delayed Justice Denied کے تحت کیس کو طول دیا جاتا رہا اگر اس وقت فوری طور پر قاتل کو پھانسی دے دی جاتی تو یقین کیجئے امیرزادوں کا دولت کا نشہ ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجاتا اور جس طرح پوری قوم اٹھی تھی اسے ایک راہ مل جاتی قوت مل جاتی وہ ہمیشہ ظلم کے خلاف باہر نکلتی مگر ساری امیدیں دفن کردی گئیں۔

المیہ دیکھیں اگر کوئی پولیس والا ظلم ذیادتی یا رشوت لیتے پکڑا جاتا ہے ویڈیو تک آجاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ سزا معطل کردیا جاتا ہے جو کچھ دن بعد بحال ہوکر آجاتا ہے اسی جگہ اگر انہیں ملازمت سے نکال دیا جائے تو کسی پولیس والے کی جرات نہ ہو وہ غلط کام کرے، الیکشن 2018 میں سندھ سے کچھ سرکاری ملازم دھاندلی کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے جنہیں وقتی طور پر معطل کردیا گیا جو بعد میں بحال ہوکر پہلے سے بھی اچھی پوزیشن پہ آگئے اگر اس جگہ انہیں ملازمت سے برطرف کرکے حوالات کی ہوا کھلادی جاتی تو ساری زندگی کوئی سرکاری ملازم فرض سے خیانت کرنے کی جسارت نہ کرے لیکن کرے کون؟ عدلیہ کے پاس صرف ایک ہی چیز ہے پیشی پہ پیشی اور افسوسناک صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس صاحب نے کچھ عرصہ قبل سندھ پبلک سروس کمیشن کا کیس سنا جس میں کنٹرولر صاحب میرٹ کے برخلاف نااہل خائن تینوں ہی خوبیوں کے مرتکب نکلے باوجود اسکے اسے نہ صرف باعزت صاف راستہ دیدیا گیا بلکہ پرانی پوسٹ جوائن کرنے دے دی سزا دینا تو رہا دیوانے کا خواب اگر ہزاروں مستحق افراد کے مستقبل تاریک بنانے اور نااہل افراد کو اداروں پہ مسلط کرنے کے جرم میں اسے نشان عبرت بنایا گیا ہوتا تو بھلا کوئی فرد کسی بااثر شخصیت سے وفاداری کرنے کی سوچتا اس کے علاوہ کچھ ممبرز حضرات بھی نااہل نکلے مگر سزا پاس ہونے والے امیدواروں کو ملی جس پہ نہ تو قہقہہ لگایا جاسکتا ہے نہ ہی رنج و غم۔

پاکستان جسے بتایا جاتا ہے کہ نازک دور سے گزر رہا ہے درحقیقت نازک دور میں دھکیلا ہوا ہے پچھلے دنوں وزیر خارجہ کا بیان تھا کہ بھارتی لابی پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے پہ تُلی ہے اور ماضی قریب میں بھارتی لابی پاکستان پہ حاوی رہی اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ زیادہ قابل ہیں بس اتنی سی بات ہے کہ ایک تو وہ اپنے فرض اپنے ملک سے سچے ہیں دوسرا یہ کہ وہاں کسی کو اپنا پیارا ہونے کی وجہ سے نوازا نہیں جاتا جبکہ پاکستان میں میرٹ کا یہ حال ہے کہ بیرون ممالک میں اہم عہدوں پر بھی اپنا نوازی چلتی ہے اور اندرون تو میرٹ کا کیا حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ فوج کے ادارے کو لے لیجئے اتنا منظم کیوں ہے اتنا طاقتور کیوں ہے کیونکہ قانون و میرٹ کا عملی نفاذ ہے اگر فوج میں بھی قانون نام کی چیز نہ ہوتی تو پاکستان کا نام و نشان بھی نہ ہوتا کیونکہ لے دیکر ایک فوج کا ادارہ ہی بچا ہے جس سے عوام کو کچھ امیدیں وابستہ رہتی ہیں یا یوں کہیے کہ پاکستان سے مخلصی میں فوج بحیثیت مجموعی کی نیتوں پہ شک نہیں کیا جاسکتا بالکل اسی طرح دیگر تمام سطحوں پر تمام اداروں میں قانون کا عملی نفاذ محض ضروری ہی نہیں بلکہ آخری آپشن ہے اور اس کے لیے اب ہمارے پاس زیادہ وقت بھی نہیں ہے ویسے حقیقتاً کرنے کو زیادہ وقت درکار بھی نہیں یہ دنوں کا کام ہے بشرطیکہ نیت صاف ہو وزیراعظم صاحب کی جماعت پچھلے پانچ سال خیبرپختونخواہ میں ریفارم ریفارم اصلاحات اصلاحات کی رٹ لگاتی رہی مگر حاصل کچھ نہ ہوا اور مرکز میں آکر بھی ریفارمز لائینگے کی ہی بات وہی پرانے گھسے پٹے طریقے اور دعوے ہیں جن میں الجھ کر یہ وقت بھی گزر جائیگا پاکستان کے استحکام کے لیے آخری بات صرف قانون کا نفاذ اور فوری انصاف ہے اس کے لیے ریفارمز کی ضرورت نہیں بلکہ سزا و جزا کی ضرورت ہے میرٹ کے نفاذ کی ضرورت ہے اگر سزا کا سلسلہ شروع ہوجائے تو دنوں میں ہی پاکستان پاکستان بن جائیگا۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں