پاکستان اندرونی طور پر ایک کمزور ریاست ہے جسکی وجہ یہاں کی شہری اور دیہی انتظامیہ ہمیشہ سے کمزور رہی ہے۔ بلدیاتی ادارے کبھی فعل نہیں ہوسکے کیونکہ عوامی نمائندوں نے ہمیشہ اپنی جیبیں بھرنے کی ہر ممکن یقینی کوششیں کی ہیں۔ بلدیاتی اداروں کو بنیاد سمجھا جاتا ہے اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر نظر ڈالیں تو وہاں ہمیں بدلیاتی ادارے ناصرف مستحکم دیکھائی دینگے بلکہ ان میں کام کرنے والے لوگ پیشہ ورانہ محارت کیساتھ ساتھ جذبہ حب الوطنی سے بھی سرشار ہوتے ہیں، وہ لوگ کام کو عبادت کی کرتے ہیں اور عبادت میں یکسوئی ہی انکی کامیابی کا راز ہے۔ شہروں کی ترقی ہی ملکوں کی ترقی کی بنیاد ہے۔ پاکستان تقریباً ساڑے تین سو چھوٹے بڑے شہروں پر مشتمل ہے، لیکن کوئی ایک شہر بھی مثالی نہیں کہ جس کی مثال دیکر کہا جائے کہ آؤ اوردیکھو یہ ہے پاکستان کا اصلی چہرہ۔ کراچی پاکستان کا سر فہرست بڑا شہر ہے اور یہ شہر جتنا بڑھتا چلا گیا اتنا ہی مشکلات میں گھرتا چلا گیا۔ جیساکہ پہلے بھی عرض کیا کہ بلدیاتی ادارے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں لیکن ہمارے یہاں تو بنیادیں پہلے ہی کمزور تھیں، اب اور کمزور کی جارہی ہیں۔
ایک وہ ادارے ہیں جن کا تعلق روزگار سے ہے اور دوسرے وہ ادارے ہیں جو ملک کی نطم نسق کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ہیں۔ہمارے ملک میں ہر قسم کے ادارے اپنے بقاء کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں اوریہ نسل در نسل ہوتا چلا آرہا ہے۔جو بات اب لکھنے جارہا ہوں وہ بہت سارے ذہنوں میں کھلبلی مچادیگی لیکن کچھ حقیقت کے قریب تر ہے کہ کاروباری اداروں کی تباہی میں سیاسی اداروں کا بھی ہاتھ ہے۔ یہاں تو جو ادارے مستحکم ہوں ان پر بھی نظر جاتی ہے کہ ہم نے تو ایسے حالات خراب کر رکھے ہیں لیکن یہ ادارہ اتنا کیسے مستحکم ہوسکتا ہے۔
آج تک یہ سمجھ میں نہیں کہ جو اقتدار میں ہوتا ہے سوائے اسکے سارے کا سارا ملک جوکہ مخالف جماعتوں کا ملک بن جاتا ہے Establishment کو برا بھلا کہتا سنائی دیتا ہے، میڈیا کی کوئی بھی قسم اٹھا لیں سب کے سب مذکورہ نام لے کر دہائی دیتے دیکھائی دیتی ہے اور کہیں کہیں پر تو حکومت بھی اس ادارے کو تنقید کا نشانہ بناتی سنائی دیتی ہے۔ دو ادارے پاکستان میں منظم اور مستحکم ہیں ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے اور دوسرا عدالتی نظام (جو کہ قدرے ہچکولے کھاتا رہتا ہے)۔ یہ دونوں ادارے سیاست دانوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں، اتنے خوف کے باوجود بھی آج جو کچھ سامنے آرہا ہے وہ ان اداروں کیلئے بھی حیران کن ہوگا۔ اداروں میں دیکھ بھال اور متوازن (check & balance) نظام کا ہونا اور ہوتے ہوئے بھی غیر فعال کئے رکھنا، من مانی تخریب کاری کیلئے ضروری رہا ہے۔ جب کوئی ادارہ کسی باضابطہ وضح کردہ طریقہ کار پر چلائے جاتے ہیں اور کسی بھی قسم کی بیرونی اور اندرونی دراندازی کو رد کر دیا جاتا ہے تو ادارہ اپنے قدموں پر زیادہ مضبوطی سے کھڑا رہتا ہے جس میں اہم ترین کردار قیادت کا ہوتا ہے۔ قیادت جھول کھائے گی سارا ادارہ دھڑام سے زمین پر آجائے گا۔
دنیا کے وہ قائدین جنہیں دنیا نے آج بھی یاد رکھا ہوا ہے، وہ کسی بے قاعدگیوں میں کبھی ملوث نہیں رہے انکا اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا سب اپنی عوام کیلئے تھا ان لوگوں نے عوام کی طرح رہتے ہوئے عوام میں اپنا ایسا مقام پیدا کیا کہ آج بھی عوام ان لوگوں کے ناموں کو ہاتھ اٹھا کر سلیوٹ کرتی دیکھائی دے رہی ہے؛ ہماری بدقسمتی سمجھ لیجئے کہ ہمارے سیاسی قائدین اپنے آپ کو بڑے ناموں سے تشبیہ تو دلوانا چاہتے ہیں لیکن عوام کی طرح زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ پاکستان اس وقت ایک کڑے دور سے گزر رہا ہے حکومت وقت کو قانون سازی پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے اور ایسا قانون بھی پاس کرانے کی ضرورت ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والا محدود جائداد اور مال رکھتا ہوگا، یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ اسکی جائیداد میں بچوں اور اہل خانہ کا محدود حصہ ہو۔ ایسی بہت ساری قانونی اصلاحات پاکستان کیلئے ناگزیر ہیں۔ اگر ممکن ہوسکے تو شرعی قوانین پر مبنی ایک نیا قانون متعارف کرانا چاہئے جس میں ریاست کے ہر فرد کیلئے متوازن زندگی گزارنے کے قوانین ہوں۔
بہت واضح نظر آرہا ہے کہ تقریباًحکومت مخالف جماعتوں کے تمام ہی ممران اپنی ذاتی بقاء کی جنگ کرتے دیکھائی دے رہے ہیں، انہیں اس بات کا بھی احساس نہیں ہو رہا ہے کہ و ہ اپنی اس لڑائی میں اپنے ملک کے اہم اداروں کو بین الاقوامی سطح پر رسوا کر وا رہے ہیں۔ کہیں سیاسی قد بڑھانے کی تگ و دو میں اداروں کی بے حرمتی کی جاتی ہے تو کہیں خود کو چھپانے کیلئے اداروں کی طرف توجہ دلائی جاتی رہی ہے۔ یہ ادارے پاکستان کی شان ہیں انہیں انکی قدرومنزلت دینی پڑے گی اور ان اداروں کو بھی چاہئے کہ جو کوئی ملک کو ذاتی ملکیت سمجھنے لگے اسے خصوصی یاد دہانی کرائیں کہ یہ ملک بائس کڑوڑ پاکستانیوں کا ہے ناکہ کسی خاص خاندان یا پھر سیاسی جماعت کا نہیں ہے۔ اداروں کیخلاف محاذ بنانے والوں کیلئے قانون سازی کرنی چاہئے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا چاہئے۔ ہر کوئی یہ چاہتاہے کہ اسے ہی سچامانا جائے اور ہر کوئی اسکی سچائی کی گواہی دے کوئی قانون کی نا سننا چاہتا ہے اور نا ہی قانون کو اپنے لئے ماننا چاہتا ہے۔ پاکستان کی ترقی کی راہ میں یہی ساری رکاوٹیں پچھلے ستر سالوں سے پڑی ہوئی ہیں، اب ان سے جان چھڑانے کا وقت آگیا ہے۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔