ہمارے گھنٹوں گھر سے باہر کرکٹ کھیلنے پر دادا دادی نے ہمیں شائد کبھی کچھ نہیں کہا لیکن ہمیشہ ہمارے والدین کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ بچوں کو زیادہ آزادی نہیں دینی چاہئے۔ ہم ہمیشہ دل ہی دل میں یہ سوچتے رہے کہ بھلا ہمارے کرکٹ کھیلنے سے آزادی کا کیا تعلق ہے؟آج ہم اپنے بچوں کو باہر جانے سے روک رہے ہیں اور بہت شدت سے اس عمل کے درپے ہیں، آخر کیوں؟ کیا ہم نے گھر سے باہرکھیل کود میں وقت نہیں گزارا، کیا ہم گھر سے باہر دوستوں کیساتھ گھومنے پھرنے نہیں گئے خصوصی طور پر عید کی خوشیاں منانے، جاگنے والی راتیں مسجدوں اور گھومتے پھرتے گزارنا اور اسطرح مختلف مواقعوں پر اپنی خود ساختہ آزادی کا جشن نہیں منایا کرتے تھے، بھرپور طریقے سے تفریح کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی اس رویئے کو بغاوت کہ درجے میں رکھ کر جو کچھ بدن برداشت کرتا تھا اسے لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے۔ درحقیت آزادی کو اس وقت کے بڑے کبھی سرد اور کبھی گرم کے طور پر لیتے تھے یعنی کبھی پکڑ ہوگئی اور کبھی نظر انداز کردیا گیا، لیکن بڑوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اب حالات شدید نہیں ہوسکتے یعنی مکمل بغاوت کے جو جراثیم تھے انکا قلع قمع کردیا گیا ہے۔ معلوم نہیں یہ سب جان بوجھ کر ہوتا تھا یا پھر خدائی فوج داری اس عمل کی جانب دھکیل دیتی تھی۔ جو لوگ اس عمل سے گزرے وہ بلکل کسی سدھائے ہوئے جانور کی طرح اپنی اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں جبکہ جنہوں نے بغاوت کی تو وہ آج تک بھاگ رہے ہیں۔ اس سارے معاملے کو ایک جملے میں بے ادب بدنصیب، با ادب خوش نصیب، کہتے ہیں۔اتنی جانکاری اور حفاظتی حصاروں کے باوجود آج اس مہذب اور ترقی کرتی دنیا میں جو کچھ بچوں اور بچیوں کیساتھ ہو رہا ہے وہ شائد جب انسان غار کے دور میں رہتا تھا جب بھی نہیں ہوتا ہوگا، یہ ہے وہ اہم ترین وجہ بچوں کو گھروں میں ہی ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کی، کہ وہ کسی بھی طرح سے غیرضروری اور بغیر اجازت گھر سے باہر نا نکلیں۔
بڑی بڑی بے ضابطگیاں یا نافرمانیاں ایک دن میں نہیں ہوتیں، یہ ایک مسلسل کارگزاری کے عمل سے گزر کر کسی خاص مقام پر پہنچتی ہیں۔ جھوٹ کو چھوٹا یا غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ دینا پہلی اور آخری غلطی ہوتی ہے، جھوٹ بولنے والے کوہمیشہ یہ احساس دلانا ایک مہذب اور ذمہ دارمعاشرے کی ذمہ داری ہے اگر ایسا نا کیا جائے گا تو ناصرف اس جھوٹے کو تقویت ملے بلکہ آس پاس موجود لوگوں پر بھی یہ تاثر پڑے گا کہ یہاں جھوٹوں کو بھی عزت مل جاتی ہے اور آہستہ آہستہ جھوٹوں کی ایک فوج تیار ہوجاتی ہے جو معاشرے کو اپنی مرضی سے جبری ترتیب دینا شروع کردیتے ہیں پھر پھیر ی والے سے لیکر ملک کے صدر تک سب جھوٹ بولنے کو فن کا لبادہ پہنا دیتے ہیں اور اسطرح سے بربادی کو اپنے گھر کی بربادی کا راستہ خود دیکھا دیتے ہیں۔ ایسے معاشرے سے تربیت پانے والی نسلیں جھوٹے اور سچے میں فرق کرنے کے سلیقے سے محروم ہوجاتے ہیں اور جھوٹ خوب پھلتا پھولتا چلا جاتا ہے۔ بے ضابطگیوں کی بنیادی وجہ اختیارات سے تجاوز کرنا یا پھر رائج طریقہ کار کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے، جوکہ عام آدمی کرتا ہے تو فوری پکڑ میں آجاتا ہے لیکن اگر یہی کام کوئی نامی گرامی کرے تو (جوکہ اکثر ہوتا ہے) اربابِ اختیار کسی اپنے جیسے سے نمبرد آزما ہونے کی صلاحیت سے محروم پائے جاتے ہیں۔ یہ ہے بنیادی معاشرتی بگاڑ کا سبب۔
دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، طے شدہ حدود سے باہر نکلنے والے کو اسکی نافرمانی کی قرار واقع سزا دی جاتی ہے۔طے شدہ حدود سے مراد وہ قوانین ہیں جو معاشرے کو حیوانیت سے انسانیت کی طرف دھکیل کر رکھتے ہیں۔ وقت کیساتھ ساتھ ان حدوں کو وسعت بھی دی جاتی ہے اور کبھی ان کے دائرے کو کم بھی کیا جاتا ہے۔ حدود کی دائرے کو بڑھانے یا گھٹانے کیلئے جن افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ انتہائی قابل اور زمانے پر بہت حد تک عبور رکھتے ہیں انہیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ زمانے میں رائج اقدار کن وجوہات کی بناء پر ردو بدل کا شکا ر ہیں۔ اس بات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے کہ ثقافتی جھول پیدا نا ہوجائے یا پھر ہمارے رہن سے مطابقت نا رکھنے والے حصے کو بھی ہم اپنی حدود میں داخل کرلیں۔ در حقیقت یہ انتہائی اہم نوعیت کے امور ہوتے ہیں جو قوموں کو آباد یا برباد کرنے کے راستے پر ڈالتے ہیں۔ کسی کیلئے معاشرہ آزاد ہے اور کسی کو معاشرہ قید خانہ محسوس ہوتا ہے، معاشرے میں ثقافت یا اقدار کی تفریق کا ایک اہم سبب مذاہب ہیں۔ معاشرہ تو ایک ہوتا ہے لیکن اس میں رہنے والے مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں (معاشرتی حدود مذاہب ہی کی بنیاد پر رکھتے جاتے ہیں)۔یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ اکثریت کا ہی غلبہ ہوتا ہے۔ اس طرح سے جدید معاشرے میں سب کو سب کچھ دینے کی کوششوں میں اقدار اور ثقافت مسخ ہوتی جار ہی ہیں خصوصی طور پرایسا تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی بات کرنے والے اداروں اور ان کے قوانین مرتب کرنے والے کیا اس امر سے واقف نہیں کہ کون کہاں تک ان قوانین کو اپنی حدود میں آنے کی اجازت دے گا۔ یقینا آج جتنے ممالک بھی عتاب میں ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے یا انکے معاشرے میں، انکی ثقافت میں اتنی گنجائش نہیں تھی کہ وہ کسی بھی قسم کہ قانون کو اپنی حدود میں آنے کی اجازت دیں۔ عبوری طور پر کہیں جانا وہا ں رہنا، گھومنا پھرنا اور واپس چلے جانا ایک رسمی سی چیز ہے، لیکن اس کی آڑمیں وہاں کے لوگوں کو اکسانہ یا ورغلانہ کہ یہاں تو بہت محدود حدیں ہیں، کسی بھی طرح سے ریاست کیلئے قابل برداشت نہیں ہوسکتا۔
ایک وہ دور تھا جب ریاست کے سربراہ اور دیگر اعلی حکام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور ان تک کوئی بات یا مسلۂ پہنچانا نا ممکن سمجھا جاتا تھا اور کوئی ایسا سوچتا بھی نہیں تھا۔ دنیا اسوقت میڈیا کی زد میں ہے ہر طرف سماجی میڈیا کا شور ہے لوگ چلتے پھرتے، سفر کرتے غرض یہ کہ گھروں میں بیٹھی خواتین بری طرح سے اسکی لپیٹ میں ہیں، جیسے کہتے تھے کہ اسکو تو جن چمٹ گیا ہے تو آج پورے معاشرے کو جن چمٹا ہوا ہے، آج تقریباً دنیا کے سربراہان اور اعلی حکام باقاعدہ سماجی میڈیا کا حصہ ہیں اور دنیا میں رونما ہونے والے واقعات پر اپنے تاثرات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ معاشرے کی ذہنیت اور اسکے تعلیم یافتہ ہونے کا پتہ بھی آج سماجی میڈیا سے لگایا جا رہا ہے۔ یہ سمجھ لینا آسان ہوگیا ہے کہ ساری حدیں پھلانگتا ہواہر کسی کی حدوں میں درانداز ہو چکا ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ یہ لکھنے والے کسی حدود و اربع کو خاطر میں رکھے بغیر لکھتے ہی چلے جاتے ہیں اور دور حاضر میں تو سرحدوں کے محافظوں کی طرح یہ لکھنے والے بھی نظریات کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی زندگیا ں قربان کر رہے ہیں۔ ایسا ممکن نہیں کہ سب ہی بغیر کسی معاوضے کے اپنے قلم سے قرطاس کو روشنائی بخش رہے ہوں۔ رزق کی فراہمی اور امور ے معاشرت بھی تو چلا نے ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ یہ لکھنے والے خصوصی طور پر جن کا تعلق گردش کرتی خبروں اور خبروں کی زینت بننے والوں سے ہو، کسی کی حدود کا کسی کے نظرئیے کی سرحدوں کی حفاظت کر ہی رہے ہوتے ہیں۔ شہرت، قدر و منزلت سب دنیا میں رہ جائے گا کوئی اگر ہاتھ اٹھا کر دعا دے گا تو کوئی ہاتھ اٹھا کر دہائی بھی دے سکتاہے۔
آج جب ہم میڈیا کے دور میں قید ہیں، آج جب معاشرتی سرحدوں کا تقدس پامال ہوچکا ہے، آج جب عزت اور ذلت کا فرق ختم ہونے کو ہے، آج مذاہب مسجد، مندر اور کلیساء میں قید ہوکر رہ گئے ہیں تو ایسے میں صرف قلم ہی ہے جو ایک بار پھر حقیقی انسانیت کی بقاء کی جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔انسان نے گولے اور بارود سے دنیا کو رہنے کی قابل بنانے کی ہر ممکن کوشش کر کے دیکھ لی لیکن دنیا کی کیا حالت ہوچکی ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اب قلم ہی اس ہچکیاں لیتی دینا کی آخری امید ہے، قلم ہی حق اور سچ کو محبت سے عام کرسکتا ہے، جو علاقائی سرحدوں کی حرمت اجاگر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے،جو پھر سے حدود کی پاسداری کو یقنی بنا سکتا ہے اور جو پھر امن و محبت کے گیت فضاؤں میں بکھیر سکتا ہے۔اب قلم ہی سرنظریوں کی حفاظت کا حقیقی پاسبان ہے۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔