کون نہیں جانتا کہ بھارت نے دل سے کبهی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا، روز اول سے ہی بھارت نے پاکستان کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی۔ اپریل 1984 میں جب پاکستان کی توجہ ایک طرف روسی جارحیت کی طرف تھی دوسری طرف سندھ میں قوم پرستوں کا مسئلہ اور دیگر ملک سیاسی عدم استحکامی کا شکار تھا تو بھارت نے مکاری سے اپریل 1984 میں آپریشن میگدوت شروع کر کے سیاچن گلیشئر پر قبضہ کر لیا جس کے جواب میں مئی 1999 میں پاک فوج نے موقع سے فائدہ اٹهاکر آپریشن البدر شروع کیا اور کامیابی سے پانچ سیکٹرز پر قبضہ کر لیا جس سے کشمیر میں موجود بھارتی فوجی پاکستان کے رحم و کرم پر آگئے قریب تھا کہ بھارت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا اور مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑتا اس صورتحال کے پیش نظر بھارت نے سفارتی مید میں خوب جوہر دکهائے بقول جنرل پرویز مشرف اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے ایسی حماقت کی کہ ساری دنیا میں پاکستان بدنام ہو کر رہ گیا۔
کنٹرول لائن کوئی انٹرنیشنل مستقل بارڈر نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا عارضی violable بارڈر ہوتا ہے جہاں جس فوج کا موقع لگے قبضہ کر کے چیک پوسٹ بنا لیتے ہیں وہیں بارڈر بن جاتا ہے ایسے میں جب نواز شریف حکومت کو دنیا کے سامنے بهارتی دہشت گردی، ظلم و جبر دنیا کے سامنے رکهنا تها تو نجانے وہ کونسی مصلحت یا مجبوری تهی کہ الٹا اپنی ہی فوج کو غلط قرار دے بیٹهے جس کا بهارت نے پورا فائدہ اٹهایا اور بین الاقوامی سطح پر پاکستانی جارحیت دکهاتا رہا جبکہ حکومت پاکستان نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اس کے برعکس بھارت نے میڈیا کے ذریعے عوام کو اعتماد میں لیا جس سے بڑے پیمانے پر فوج کو عوام نے فنڈز دیئے، دوسری طرف عالمی سطح پر پروپیگنڈہ کیا کہ پاکستان مجاہدین کو سپورٹ کرتا ہے۔
نواز حکومت نے بجائے کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضہ کو ہائی لائٹ کرنے کے الٹا اپنی ہی فوج پہ برس پڑے جو کہ بھارت کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا، وہ بھارت جسے 1998 میں ایٹمی دھماکے کرنے کی وجہ سے پوری دنیا غلط نظروں سے دیکھتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مظلوم بن گیا اور پاک فوج کو “راگ آرمی” لکھا گیا۔ وجہ صرف ہماری سفارتی ناکامی تھی۔
اس ضمن میں جنرل وی پی سنگھ نے اپنی کتاب “بھارت کے عسکری تنازعات اور سفارتکاری” میں کہا کہ صورتحال کے پیشِ نظر بھارت نے یہ اہداف سیٹ کیے، (1) دنیا کو قائل کرنا کہ بھارت پاکستانی جارحیت کا شکار ہے اور پاکستان نے شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے (2) یہ ثابت کرنا کہ ذرانداز عسکریت پسند نہیں بلکہ پاکستان آرمی ہے۔ (3) ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے پاکستان کو غیر ذمہ دار اور ایٹمی پھیلاؤ کا باعث بناتے ہوئے خود کو ذمہ دار اور ایٹمی پھیلاؤ کی راہ میں رکاوٹ ثابت کرنا تھا۔
ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے واقعے سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے خوب پروپیگنڈہ کیا کہ پاکستان دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے مگر وقتی طور پر جنرل پرویز مشرف اس دباؤ کو ٹالنے میں ضرور کامیاب ہو گئے لیکن جیسے ہی جمہوری دور آیا تو ایک بار پھر پاکستان ریڈزون میں آگیا۔
حکومتوں کا یہ حال تھا کہ وہ پاکستان کو ذمہ دار ریاست ثابت کرنے کے بجائے اپنے انٹرویوز، میمو گیٹ، ڈان لیکس جیسے پلانٹڈ ڈراموں کے ذریعے مزید تنہائی کا شکار کرنے پر تلے رہے۔ دوسری طرف بھارت تھری پوائنٹ ایجنڈےپر کار بند رہا (1) امریکہ کے ساتھ مل کر چائنا کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنا اور اسکی جگہ ایشین ٹائیگر بننا اس ضمن میں SAARC کو BIMSTEC سے بدل دیا گیا اور بے آف بنگال، آبنائے ہرمز، آبنائے ملاکا پر قبضے کے خواب سجانے لگا۔
دوسرا یہ کہ مائنس پاکستان کا ایجنڈا بھارت کی پالیسی و سفارتکاری کا سب سے اہم پوائنٹ تھا اور متعدد بار عالمی سطح پہ تنہا کر دینے کے دعوے کرتا رہا ساتھ ساتھ FATF کے زریعے پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے پہ تُلا رہا، تیسرا اور اہم نقطہ بھی پاکستان کے گوادر کے خلاف ہی تھا جسکے تحت بھارت نے BIMSTEC کو سارک کا نعم البدل بنا کر ایسٹ ایشیا کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور ریجنلزم کے تحت ساوتھ ایسٹ ایشین ممالک کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں میں لگا رہا۔
عمران حکومت آتے ہی بھارت کو اپنے خواب پورے ہونے میں شک پیدا ہوگیا اور وہی ہوا، عمران خان نے ماضی کو دیکھتے ہوے حال میں رہ کر مناسب جدوجہد کے زریعے پاکستان کے مستقبل کی راہ کا تعین کیا، سعودی عرب، چین، قطر، عرب امارات، ملائشیا پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں آگے آگے ہیں اس کے علاوہ بہت سے دیگر ممالک بھی پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
حالیہ دورہ امریکہ سے پہلے ہی امریکی کمپنیاں ایگزون موبائل اور کرگل پاکستان میں بھرپور متحرک ہیں اس کے علاوہ اب عمران خان امریکی کارپوریٹ سیکٹر کی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے پُرامید ہیں، حافظ سعید کی گرفتاری اور دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات سے ٹرمپ انتظامیہ نے مطمئن ہونے کا اظہار کیا۔ خود ٹرمپ کا ٹویٹ اس ضمن میں موجود ہے اس کے علاوہ دورے سے پہلے BLA کو دہشتگرد تنظیم قرار دیکر کالعدم کر دینا بھی موجودہ حکومت کی جیت ہے۔ ورنہ 2016 ہی کی تو بات ہے جب امریکی سینیٹ سے بلوچستان میں حق خودارادیت کی قرارداد پاس ہوئی تھی، یہ پہلا موقع تھا جب وزیراعظم، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی ایک ساتھ ہوں اور اس قدر پروٹوکول ملے ورنہ پہلے تو ہمارے حکمرانوں کے کپڑے تک اتروا لیے جاتے تھے، پروٹوکول تو رہا دور کی بات۔
عمران خان کے حالیہ دورے نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکہ پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے پہ مجبور ہوگیا ہے، افغان امن عمل سے بھارت کی مکمل چھٹی ہوگئی ہے اور اب پاکستان اس کا اہم کردار ہے، آج ایک بار پھر دنیا پاکستان کو ذمہ دار ریاست کے طور پر دیکھ رہی ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہماری قربانیوں کو تسلیم کررہی ہے۔
بھارت نے مجبوراً اب پہلی بار چار میں سے ایک اہم ترین وزارت پر سیاستدان کی بجائے ایک ٹیکنوکریٹ کو وزیر خارجہ بنادیا ہے جو اب پڑوسی پہلے کی پالیسی پہ عمل پیرا ہے اور یہ ماننے پہ مجبور ہے کہ پاکستان کے بغیر یہ خطہ نہ تو مکمل ہے نہ ہی ترقی کرسکتا ہے۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔