پی ٹی آئی، سیاست کی برائیوں کا مرکب (ساجد خان)

ہم اگر نوے کی دہائی تک کی سیاست پر نظر ڈالیں تو ہمیں گالم گلوچ، انتقامی کارروائی اور غلط پروپیگنڈہ عروج پر نظر آتا تھا۔

اس زمانے میں اگر کوئی سیاست دان غلطی سے بھی ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین پر تنقید کرنے کی غلطی کرتا تھا تو فوراً ہی اس کے جواب میں اس شخصیت کی خواتین تک کے خلاف زہر اگلا جاتا تھا اور اگر تنقید کرنے والے کا تعلق پنجاب سے ہوتا تو اس کا خمیازہ پورے پنجاب کو بھگتنا پڑتا جس کی ایک مثال چوہدری نثار کی ہے جس نے الطاف حسین پر تنقید کیا کی،ایم کیو ایم نے پنجاب کے ہر گھر میں مجرے ہونے کا الزام لگا دیا۔
نواز لیگ کی اگر ہم بات کریں تو یہ جماعت بھی انتقامی کاروائی میں ہمیشہ سب سے آگے رہی ہے۔

مخالفین پر جھوٹے مقدمات بنا کر تذلیل کی جاتی رہی،مخالفین کی خواتین کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کۓ جاتے یہاں تک کہ بینظیر بھٹو کے بارے میں امریکی اداکارہ کی نیم برہنہ تصاویر ایڈیٹ کر کے نا صرف تقسیم کی گئیں بلکہ قومی اخبارات میں بھی شائع کی گئیں،جن افراد نے اسی اور نوے کی دہائی کی سیاست دیکھی ہے وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اس زمانے میں بینظیر بھٹو کی پہچان ایک سیاسی لیڈر کے بجائے ایک بد کردار اور فاحشہ کے طور پر تھی،جس طرح ہم آج ہر لطیفہ پٹھانوں پر چسپاں کر دیتے ہیں بالکل اسی طرح ہر غلیظ لطیفے میں بینظیر بھٹو کا ذکر ہوا کرتا تھا،شریف خاندان کو کیونکہ اچانک ہی بیٹھے بٹھائے اتنا اقتدار حاصل ہوا تھا لہذا وہ کوشش کرنے لگے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے عرب حکمرانوں کی طرح اعلیٰ مالک بن جائیں اور جمہوریت کو بادشاہت میں بدل دیں یہی وجہ ہے کہ ایک بادشاہ کی طرح حکمرانی کرنے لگے،جس نے اختلاف کیا اسے دشمن سمجھا گیا خواہ وہ اپوزیشن لیڈر تھی،صدر مملکت تھا،چیف جسٹس تھا یا چیف آف آرمی سٹاف،کسی کے لئے رحم نہیں تھا یہاں تک کہ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کی جرآت بھی کر ڈالی کیونکہ عدالت ان کی مرضی کے خلاف فیصلے دے رہی تھی مگر جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے بعد نواز لیگ کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کے بعد شریف خاندان کو احساس ہوا کہ تکلیف کیا ہوتی ہے،جس کے بعد ان کی سیاست میں قدرے ٹھراؤ سا آیا اور یوں ایک مثبت سیاست کا آغاز ہوا جبکہ ایم کیو ایم اپنی ہی بد زبانی کا شکار ہوتی چلی گئی اور کل جو الطاف حسین پر ہلکی سی تنقید پر بدتمیزی کی تمام حدود پار کر دیتے تھے،آج خود الطاف حسین پر تنقید کرنے پر مجبور ہیں۔

سیاست میں پختگی آ رہی تھی،گالم گلوچ کی سیاست دم توڑ رہی تھی کہ بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کو لانچ کر دیا گیا،نوجوان نسل نے اپنے بزرگوں سے بغاوت کی ٹھانی کہ اب نیا دور ہے لہذا پرانے خیالات اور سوچ کا وقت گزر گیا،اب اپنے فیصلے ہم خود کریں گے اور یوں ہم ایک بار پھر ماضی کی سیاست میں آ کھڑے ہوئے۔

پاکستان تحریک انصاف کا عروج 2011 میں شروع ہوا اور لاہور کے جلسے کے بعد یہ جماعت اچانک سے ایک نہایت ہی چھوٹی جماعت سے بڑی پارٹی شمار ہونے لگی۔

اس دوران ہر طرف سے شکوہ شکایات آنا شروع ہو گئیں خصوصاً میڈیا سے منسلک افراد یہ گلہ کرتے نظر آۓ کہ پاکستان تحریک انصاف پر ہلکی سی تنقید پر اس جماعت کے کارکنان غلیظ زبان استعمال کرنے لگ جاتے ہیں یہاں تک کہ فیملی کی تصاویر اور خواتین کے بارے میں بھی لیکن یہ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا۔

بڑے بڑے عزت دار اور بزرگ افراد کی تذلیل یہ کہہ کر کی جاتی تھی کہ انہوں نے ہمارے ملک کو لوٹا ہے اور انہی تاویلوں سے بد زبانی کو مزید شہہ ملی۔

شریف خاندان پر ہر طرح کے الزامات لگائے گئے یہاں تک کہ ان پر وہی ہتھیار استعمال کیا گیا جو کبھی بینظیر بھٹو پر نواز لیگ نے استعمال کیا یعنی ان کی خواتین پر بدکاری کے الزامات،مریم نواز پر قطری شہزادے سے ناجائز تعلقات کا الزام لگایا گیا تو کراچی میں جو نقیب اللہ محسود نوجوان کو پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا تو اس پر بھی یہ کہا گیا کہ اس کے بختاور بھٹو کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے،جس پر زرداری نے اسے مروا دیا یعنی جس نے بھی عمران خان سے اختلاف کیا وہ عزت کے قابل نہیں رہا خواہ وہ سیاسی شخصیت ہو یا مذہبی۔

دوسری طرف کراچی جو کہ ایم کیو ایم کی تباہی کے بعد امن کی طرف جا رہا تھا اور کوئی ملٹری ونگ نہیں رہا تھا کیونکہ جب ایم کیو ایم وجود میں آئی تو اس نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے سیاست میں ملٹری ونگ کی بنیاد رکھی،جس کے بعد دوسری دوسری سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھی اپنی بقاء کے لئے یہ قدم اٹھانا ضروری سمجھا،جب ایم کیو ایم کا ملٹری ونگ ختم ہوا تو دوسرے ملٹری ونگ بھی خود بخود ختم ہوتے چلے گئے لیکن اب وہاں دوبارہ ایک ونگ تیار ہوتا نظر آ رہا ہے اور اس بار “فکس اٹ” کی شکل میں یہ سامنے آیا ہے،مجھے اس بات کی بالکل بھی سمجھ نہیں آتی کہ کراچی کے باسی جو خود کو بقیہ پاکستان سے سب سے زیادہ عقلمند اور مہذب تصور کرتے ہیں،وہ سیاست میں اتنے بیوقوف کیسے ہو جاتے ہیں کہ عامر لیاقت حسین جیسے کو دوبارہ منتخب کر لیتے ہیں یا عالمگیر خان جیسا شخص جس کی شہرت ہی شرارت،مار کٹائی اور سڑکیں بلاک کرنا تھا،اسے اپنا نمائندہ منتخب کر لیا،اس میں ایسی کیا خوبی تھی کہ کراچی کے شہریوں کو محسوس ہوا کہ یہ شخص ہماری بہتر نمائندگی کر پائے گا۔

ایک شخص جس کو عزت ہی دنگا فساد سے ملی،اسے تو یہی لگے گا کہ یہی صحیح راستہ ہے جس میں عزت بھی ہے اور پیسہ بھی۔

عالمگیر خان نے کل جو کچھ کیا یا جو ماضی میں کرتا رہا ہے وہ ایک مہذب معاشرے میں ہرگز قابل قبول نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ قانون کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دے سکتا،ہمیں اچھا لگتا ہے جب عالمگیر خان گندگی سے بھرا ٹرک لا کر وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے ڈال دیتا ہے،سب واہ واہ کرتے ہیں،میڈیا بھی اسے بریکنگ نیوز کے طور پر بتاتا ہے۔

سب ہنسی مذاق میں ایک دوسرے کو واقعہ بتاتے ہیں اور سب اس سے محظوظ ہوتے ہیں لیکن کیا گندگی سے بھرا ٹرک بنی گالہ میں وزیراعظم کے گھر کے باہر بھی پھینکنے کی اجازت ہو گی۔اب ایسا تو نہیں ہے کہ گندگی صرف کراچی میں ہے اور دوسرے صوبے صفائی ستھرائی میں یورپ کے لئے بھی اعلیٰ مثال بن چکے ہیں،کیا پنجاب کے سب سے کمزور ترین وزیر اعلیٰ اس بات کی اجازت دے گا کہ اس کے گھر کے سامنے کوئی شہری لاہور کا کوڑا کرکٹ پھینک دے۔

اول تو کوئی ایسی جرآت نہیں کرے گا اور اگر کسی سر پھرے نے یہ حرکت کی تو اس پر دس مقدمات کے ساتھ ساتھ موقع پر دھلائی بالکل مفت کی جائے گی۔
پاکستان تحریک انصاف منصوبہ بندی کے ساتھ یا غیر ارادی طور پر کراچی میں ایک ملٹری ونگ کی بنیاد رکھ رہی ہے اور باقیوں کو بھی ترغیب دی جا رہی ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کی کوئی عزت نہیں اور نا ہی ہمارے لئے کوئی قانون ہے،کسی بھی معاشرے میں ایسی چیزیں اس لئے پنپتی ہیں جب ان کے سامنے کوئی مثال موجود ہو اور پی ٹی آئی یہ مثال پیدا کر رہی ہے کہ ایک قانون شکن کے لئے اسد عمر اور خرم شیر زمان اور دوسرے ممبران اسمبلی تھانے پہنچ جائیں اور اسے ہیرو کے طور پر پیش کریں۔

اس کے علاوہ جو ماضی کی سیاست میں باقی برائیاں تھیں،ان میں اقرباء پروری اور انتقامی سیاست سرفہرست ہیں،افسوس کی بات ہے کہ اس میں پی ٹی آئی پیچھے نہیں رہی۔

خیبر پختونخواہ میں درجنوں گھوسٹ سکول اور ہزاروں بچوں کے جعلی داخلوں کا معاملہ آج بھی چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اس کیس میں اربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔

بی آر ٹی پشاور کا منصوبہ کے بارے میں اب شرطیں لگائی جا رہی ہیں کہ کشمیر پہلے آزاد ہو گا یا یہ منصوبہ پہلے مکمل ہو گا،جہاں ماضی کی فضول خرچیوں اور قوم کے پیسے کے ضیاع کی تحقیقات کی جا رہی ہیں،ان میں کرپشن کے یہ سرخیل منصوبے شامل ہی نہیں کۓ گۓ ہیں کیونکہ یہ کرپشن پاکستان تحریک انصاف نے خود کی ہے اور عمران خان جس نے ہمیشہ اقرباء پروری کے خلاف بیانات دیئے،آج علیم الحق اور زلفی بخاری جیسے افراد کس معیار کے تحت مشیر بنے ہوئے ہیں۔زلفی بخاری کی کیا قابلیت تھی کہ اسے برطانیہ سے برآمد کیا گیا،وہ نا ہی کبھی برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی کی سرکردہ شخصیت تھی اور نا ہی برطانیہ کی کی کامیاب کاروباری شخصیت جبکہ علیم الحق کی خوبیوں میں سوائے بد اخلاقی اور خواتین سے چھیڑ چھاڑ کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔

پاکستان تحریک انصاف کی کوئی خاتون غلط رویے کی طرف اشارہ کرے تو فوراً ہی علیم الحق اپنی صفائیاں دینے لگ جاتے ہیں بس یہی دو خوبیاں ہیں جو ان صاحب میں موجود ہیں اور اعلیٰ عہدے کا معیار عمران خان سے قریبی دوستی کے سوا کچھ نہیں ہے۔یہ سب اقرباء پروری نہیں ہے تو اور کیا ہے،یہ بات صحیح ہے کہ عمران خان کے قریبی عزیز کسی اہم عہدے پر فائز نہیں ہیں لیکن بہت سے عزیز رشتہ داری کی بنا پر اپنے علاقوں میں سڑکیں منظور کروا رہے ہیں اور اعلی اعلان کریڈٹ بھی لے رہے ہیں حالانکہ وہ زندگی میں کبھی کونسلر بھی منتخب نہیں ہوۓ۔

پاکستان کی سیاست میں انتقامی کاروائی کا رواج شاید پاکستان بننے کے بعد سے ہی رہا جس کو معراج شریف خاندان کی سیاست میں حاصل ہوئی،جس نے اختلاف کیا اس پر جھوٹے مقدمات بنا دیئے جائیں،اس اختلاف میں مذہب کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کیا گیا،جس کی ایک مثال سلمان تاثیر کا قتل بھی ہے،جس کیس کو ہوا دینے میں مسلم لیگ نواز کا اہم کردار رہا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں اور اپنے دور حکومت میں وہ بھی انتقامی کاروائی کے طور پر مقدمات درج کرتی رہی،جس کی ایک مثال شیخ رشید پر کلاشنکوف رکھنے کا مقدمہ ہے،جس میں وہ کئ سال اڈیالہ جیل میں سزا بھی کاٹ چکا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اس معاملے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی اور عرفان صدیقی پر سیاسی اختلاف کی بنا پر کرایہ داری ایکٹ کا مقدمہ درج کروا کر نا صرف گرفتار کر لیا بلکہ عدالت سے ریمانڈ کی بھی استدعا کی گئی حالانکہ یہ معمولی سا مقدمہ جس میں ریمانڈ لینے کی کوئی تک نہیں تھی کیونکہ اس مقدمہ میں ملزم سے پولیس نے کیا اگلوانا تھا جو ریمانڈ لینے کی نوبت آئی۔

ہمارے ملک میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں مخصوص وقت کے لئے قوانین بنائے جاتے ہیں،وہ وقت تو گزر جاتا ہے لیکن وہ قانون رہ جاتا ہے،جسے بعد میں سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے،کرایہ داری ایکٹ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ جب ملک میں دہشتگردی عروج پر تھی تو یہ بات محسوس کی گئی کہ ریاست کے پاس یہ معلومات ہو کہ کس گھر میں کس نے سکونت اختیار کی ہوئی ہے،جو کہ اس وقت کے لحاظ سے ضروری تھا لیکن آج جب دہشتگردوں ختم ہو چکی ہے تو یہ قانون عملی طور پر ختم ہو چکا ہے کیونکہ اب ان تفصیلات کی ضرورت نہیں ہے مگر حکومت نے اسی مردہ ایکٹ کو استعمال کر کے اپنے انتقام کی آگ بجھانا بہتر سمجھا، اب سوال یہ ہے کہ عرفان صدیقی سابق حکومت کی اگر غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث تھا تو اسے صحیح مقدمہ میں گرفتار کیا جاتا،اس نے اگر ملک لوٹا ہے تو اس سے لوٹ مار کا پیسہ نکلوایا جاتا لیکن مقدمہ درج بھی کیا گیا تو کرایہ داری ایکٹ کا،اس بات سے تو صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت انتقامی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے،اب یہاں یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ عرفان صدیقی جو صرف وزیراعظم کو تقاریر لکھ کر دیتا تھا،اس پر ایسا مقدمہ درج کیا گیا ہے تو رانا ثناءاللہ جو براہ راست پنجاب وزیر قانون کے عہدے پر فائز تھا اور شریف خاندان کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا،اس کے کیس میں کتنی حقیقت ہو گی؟

پاکستان تحریک انصاف انتقامی کارروائیوں سے حقیقت پر مبنی مقدمات پر بھی شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے اور اس ایک سال کی حکومت میں اس جماعت نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی سب جماعتوں میں جو عیب اور برائیاں رہی ہیں اور ان جماعتوں نے عیبوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی،پاکستان تحریک انصاف نے وہ سب عیب اختیار کر لۓ ہیں۔

ایک اور برائی ہارس ٹریڈنگ تھی،جس کا آغاز شریف خاندان نے کیا تھا،جس کی وجہ سے انہیں چھانگا مانگا کی سیاست کے بانی کے طور پر یاد کیا جاتا رہا،عمران خان نے اپنی ہر تقریر میں یہی کہا کہ تقریباً پچاس سیاسی خاندان ایسے ہیں جو ہر حکومت میں ہوتے ہیں اور یہی خاندان لوٹ مار بھی کرتے ہیں اور ان کے ووٹوں کو خرید کر شریف خاندان اور زرداری اقتدار میں آتے ہیں لہذا ان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے لیکن وہ سب دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور سب خاندان آج حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں،جن کو حکومت میں شامل کرنے کے لئے باقاعدہ بنی گالہ میں قیمتیں لگائی گئیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل جس گندی سیاست کی وجہ سے سیاست سے دور تھی اور ایسی حرکات سے نفرت کرتی تھی،آج اسی نوجوان نسل کو تحریک انصاف نے سیاست کو مزید گندا کرنے پر لگا دیا ہے اور آج انہیں وہی گندی سیاست اچھی لگ رہی ہے کیونکہ وہ اس میں اتنا آگے جا چکے ہیں کہ انہیں اچھے اور برے کے فرق کی تمیز ہی ختم کر دی ہے۔

میں اپنی بات کو ایک کہاوت پر ختم کروں گا تاکہ پڑھنے والوں کو میری اس بات کی سمجھ آ جائے کہ آخر برائی کو ختم کرنے والی نوجوان نسل کو اب اچھائی اور برائی کی تمیز کیوں نہیں رہی۔
ایک کمہار کی گجر کے ساتھ بہت اچھی دوستی تھی انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس دوستی کو رشتہ داری میں تبدیل کر دینا چاہئے اور یوں کمہار کی بیٹی گجر کے بیٹے سے بیاہ دی گئی،کمہار کی بیٹی جس نے ہر وقت اپنے گھر میں مٹی کی بھینی بھینی خوشبو ہی سونگھی تھی،جب وہ سسرال پہنچی تو اس کا دم گھٹنے لگ گیا،ہر طرف گوبر اور بدبو،اس نے اگلے دن ہی فیصلہ کیا کہ اس گھر سے بدبو ختم کر کے ہی دم لے گی اور اس نے صفائیاں شروع کر دی۔کچھ دن بعد جب باپ ملنے آیا تو بیٹی نے فخر سے کہا بابا دیکھا کہ جب تم پچھلی بار آئے تھے تو ہر طرف گوبر کی بدبو تھی،دیکھو تمھاری بیٹی نے اس بدبو کو ختم کر دیا۔

باپ ہنسا اور کہا بیٹی بدبو تو آج بھی ویسے ہی ہے بس فرق یہ ہے کہ تم یہاں رہ کر اس میں رچ بس گئی ہو۔

پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان بھی گندی سیاست کو صاف کرنے کے لئے نکلے تھے مگر سیاست آج بھی ویسے ہی گندی ہے لیکن وہ اس گندگی میں رچ بس گۓ ہیں،اسی لئے انہیں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے گندگی صاف کر دی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے سیاست کو مزید گندا کر دیا ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں