کشمیر میں بھارتی کالے قوانین! (انشال راؤ)

اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی حالیہ رپورٹ کے مطابق نام نہاد سیکیولر بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو آئے روز ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس کے علاوہ ہیومن رائٹس واچ کی ماہ فروری 2019 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پولیس و حکومت کی معاونت سے ہندوتوا دہشتگردوں کی جانب سے مسلمانوں کو بڑے پیمانے پہ ظلم و بربریت کا سامنا ہے، یہ درحقیقت ہندوتوا دہشتگردوں کے نظریہ “مہا بھارت” یا “اکھنڈ بھارت” کی تکمیل کی مذموم کوشش ہے جس کے مطابق پورے بھارت یعنی دریائے آمو تک میں غیر ہندو نہیں رہ سکتا اور جو قومیں باہر سے آئی ہیں انہیں بھی بھارت سے باہر نکالنا ہے جو ہندو مسلمان ہوگئے تھے ان کو جبراً ہندو مذہب میں داخل کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ روز اوّل سے ہی بھارتی حکومت نے مختلف ریاستوں پہ غاصبانہ قبضہ شروع کردیا تھا۔

حیدرآباد دکن میں بھارتی فوج نے ہندوتوا دہشتگردوں کے ساتھ مل کر آپریشن پولو کے نام پر غاصبانہ قبضہ جمایا اور سندر لال کی رپورٹ کے مطابق اس آپریشن میں چالیس ہزار سے زائد نہتے مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ آسام، ناگالینڈ، منی پور وغیرہ پہ زبردستی قبضہ جماکر بھارتی فوج نے ہزاروں معصوم لوگوں کو قتل کیا، اسی مذموم منصوبے کے تحت بھارت نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کیا جسے کشمیری مسلمانوں نے ہرگز تسلیم نہیں کیا اور علم بغاوت بلند کرتے ہوے آزادی کی تحریک شروع کردی، کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے بھارت نے ظلم و بربریت کا سہارا لیا، بھارتی سرکار نے کشمیر میں ظلم و بربریت کو آئینی شکل دیتے ہوے وہاں وقتاً فوقتاً کالے قوانین کا نفاذ کیا جس میں جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ 1978 (PSA)” جس کے تحت بھارتی فورسز کسی بھی کشمیری کو گرفتار کرکے دو سال تک بغیر کسی Trial یا مقدمے کے رکھ سکتی ہے اور کسی کو بھی شک کی بنیاد پہ اٹھا کر لاپتہ کرسکتی ہے جبکہ اندھیر نگری یہ ہے کہ کسی بھی اہلکار کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی جاسکتی وہ جو چاہے ظلم کریں، اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق OHCHR کے مطابق صرف مارچ 2016 سے اگست 2017 کے درمیان اس کالے قانون کے تحت ایک ہزار سے زائد کشمیریوں کو بلا جواز گرفتار کیا گیا جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔

اس کے علاوہ بدنام زمانہ قانون “آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ 1990” کا نفاذ کرکے بھارتی فورسز کو کشمیر میں جارحیت، ظلم و بربریت کا لائسنس دیا، جس کا اعتراف خود سابق بھارتی نائب صدر حامد انصاری 2014 میں دوران لیکچر کرچکے ہیں، یہ وہ کالا قانون ہے جو بھارتی سیکیورٹی فورسز کو ہر جرم پہ سزا یا مقدمے سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں، اس کالے قانون کے خلاف عالمی حقوق کی تنظیمیں مسلسل رپورٹ شایع کرتی آرہی ہیں حتیٰ کہ امریکہ بہادر کی بھی ان قوانین کی مذمت میں بہت ساری رپورٹس ریکارڈ پہ موجود ہیں، یہ عالمی قوانین کی سخت خلاف ورزی ہیں جن کو بھارتی حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے یہاں تک کہ 2012 میں جب بھارتی پارلیمنٹ میں ترمیم لائی گئی کہ فوج کے ہاتھوں زنا بالجبر کو اس قانون کے تحت استثنیٰ نہ دیا جائے تو یہ ترمیم منظور نہ ہوئی جس کا مطلب بھارتی فوج کو کشمیری خواتین کی عصمت دری کرنے کا لائسنس دیا گیا، ان کے علاوہ DAA 1990, TADA 1990 اور POTA 2002 جیسے کالے قوانین کے زیعے بھارت نے کشمیریوں کی آواز کو کچلنے کے لیے بھارتی فورسز کو ظلم و بربریت کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، ابتک لاکھوں کشمیری ان کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل 1995 کی رپورٹ میں واضح طور پہ ماورائے عدالت قتل اور دیگر ظلم و بربریت کو بھارتی ریاستی پالیسی قرار دے چکی ہے، اس کے علاوہ ہزاروں نہتے افراد کو پرامن احتجاج کرنے کے جرم میں بھارتی فورسز اسٹریٹ فائرنگ کے زریعے قتل کرچکی ہے جن کو باقاعدہ عالمی حقوق کی تنظیمیں رپورٹ کرچکی ہیں، خود بھارت کے ریاستی ہیومن رائٹس کمیشن کی 2011 کی انکوائری کے مطابق کشمیر میں ہزاروں نامعلوم اجتماعی قبریں موجود ہیں جن میں گولیوں سے چھلنی لاشیں دفن ہیں۔

2017 میں بھارتی ریاستی ہیومن رائٹس کمیشن نے انکشاف کیا کہ ایسی 6000 اجتماعی قبریں ہیں جن میں ہزاروں افراد کو فورسز نے ماورائے عدالت قتل کرکے دفنادیا ہے اور 2080 قبروں میں مدفون افراد کی شناخت کے لیے سفارشات پیش کیں جسے بھارتی سرکار نے نظرانداز کردیا، ہزاروں افراد بھارتی فورسز کے ہاتھوں زخمی ہوکر معذور ہوچکے ہیں، نہتے مظاہرین پہ ممنوعہ پیلٹ گن کو استعمال کرکے بھارتی فورسز نے ابتک ہزاروں افراد کو اندھا کردیا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، ایک طرف تو بھارتی حکومت نے UNSC کی قرارداد کے برخلاف کشمیر کے اسٹیٹس کو ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے اور دوسری طرف کشمیریوں کی نسل کشی Genocide کرنے کے بڑے منصوبے پہ عمل شروع کردیا ہے جس کے پیش نظر کشمیری رہنما علی گیلانی نے تمام امت مسلمہ سے مدد کی اپیل کی ہے، اٹھارہویں صدی کے وسط میں مرہٹوں نے جب مسلمانوں پر زمین تنگ کردی تھی تو ایک مسلمان نجیب الدولہ کی اپیل پہ افغان عظیم مجاہد احمد شاہ ابدالی کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا اور بلا کسی دیر کے فوراً اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کو ہزاروں میل کا سفر طے کرکے پانی پت کے میدان میں مرہٹوں سے حساب کرنے آپہنچا تھا، آج ایک بار پھر ایک بزرگ مسلمان نے تمام امت مسلمہ سے مدد کی اپیل کی ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ 57 اسلامی ریاستوں میں کون ہے وہ غیرتمند جو احمد شاہ ابدالی اور محمد بن قاسم کی تاریخ دہراتے ہوے کشمیری بھائیوں کو ہندوتوا دہشتگردی سے نجات دلوائے، تمام دنیائے عالم کو کشمیر کے مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا ہوگا، تاریخ گواہ ہے کہ Expansionism اور Colonialism کی لعنت کے باعث دنیا کو دو بار جنگ عظیم کی تباہی سے گزرنا پڑا جس میں کروڑہا انسان ہلاک و زخمی ہوے، مگر اقوام متحدہ کے قیام کے بعد دنیا کو کچھ سکھ کا سانس ملا لیکن اس ماڈرن وقت میں بھی بھارتی Expansionism کی خواہش کے سبب ایک بار پھر ہولناک جنگ کا خطرہ ہے اگر بھارت کو باز نہ رکھا گیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پہ عمل نہ کروایا گیا تو عین ممکن ہے کہ یہ پھر کسی جنگ عظیم کا پیش خیمہ ثابت ہو۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں