نفرت و محبت، دوستی و دشمنی انسان کی فطرت میں شامل ہیں، دوستی و دشمنی، نفرت و محبت کے صحیح استعمال سے ہی قومیں کامیابی و ترقی پاتی ہیں اور غلط استعمال سے بڑے نقصانات و بربادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی بہترین مثال صحابہ کرامؓ ہیں جنہوں نے آپس میں دوستی و محبت کی تو کامیابی و ترقی ان کے قدموں میں آگری، انسانیت دشمنوں اور اللہ و رسولؐ کے راستے میں آنے والے ہر باطل سے نفرت و دشمنی کی اور اسی کی غلط مثال بنگلہ دیش کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، بیشک دشمن کی سازش کے تحت ہی سہی مگر آپسی نفرت و دشمنی کے سبب ایک بھائی دوسرے بھائی کی جان کا دشمن ہوا تو نتیجہ بھیانک نکلا، اس کے علاوہ اس کی ایک اور مثال سندھ میں ہونے والے لسانی فسادات ہیں جس نے ملک و قوم کو تنزلی کی طرف دھکیل دیا، جانی و مالی نقصان الگ ہوا۔
انسان دوستی و دشمنی، نفرت و محبت کو اپنی فطرت میں سے نہیں نکال سکتا، بہت سے لوگ اس فطری احساس سے تنگ آکر اسے بھلانے یا مٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ نشہ کرتے ہیں اور کبھی کبھی زیادہ بہک جانے کی صورت میں کچھ بھی بونگی مار دیتے ہیں جیسے وفاق کی علامت کا درجہ پانے والے زرداری صاحب نے پچھلے دنوں کسی چیز کو زبردستی بھلانے کے لیے مہاجرین کے خلاف زہرافشانی کرتے ہوے خود کو سندھی ظاہر کیا، زرداری صاحب جوکہ بلوچ ہیں خود زبردستی کے سندھی ہیں اس لیے یہ محض چند افراد کی سوچ ہے جو نفرت و محبت اور دوستی و دشمنی کے غلط استعمال سے ایک بار پھر صوبہ سندھ کو ستر و اسی کی دہائی میں لے جانا چاہتے ہیں مگر قوم اب سمجھ چکی ہے لہٰذا وہ اب اس نفرت کے کھیل سے بیزاری کا اظہار کرتی ہے، دوستی و محبت کی اعلیٰ ترین مثال اس سے بڑھ کر کیا ہوگی جب ترک و افغان مجاہدین نے غزنوی، غوری، بابر کی سرپرستی میں ہندوستان کی طرف رخ کیا اور فاتح ہوتے ہوے بھی مفتوحہ قوم سے اچھا حسن سلوک رکھا جسکی بدولت مقامی باشندوں نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا، یہ محبت کے صحیح استعمال ہی کا نتیجہ تھا جو سرزمین ہندوستان اسلام کا گہوارہ بنی اور بعد میں ان بیرونی افغان مجاہدین اور مقامی نو مسلمانوں ہی کی اولادیں قائداعظم کا ہر اول دستہ بنیں پھر ان ہی کی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر پاکستان کی شکل میں موجود ہے۔
دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر مشکل آتی تو تکلیف ان کو محسوس ہوتی خواہ وہ ترک خلافت کا مسئلہ ہو یا حرمین شریفین کا، سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کا معاملہ ہو یا مسلمانوں کی شناخت اور وجود کا یا پھر مسلمانوں کی تعلیم کا، یہی وہ واحد طبقہ تھا جو دن رات ایک کیے ہوے تھا، الیکشن 1937 میں مہاجرین ہی تھے جنہوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیا تھا، یوپی، سی پی، بہار وغیرہ ہی سے تعلق رکھنے والوں نے مسلم لیگ کو اس وقت زندہ رکھا ورنہ سندھ پنجاب وغیرہ سے مسلم لیگ کو کوئی سیٹ نہ ملی تھی، اگر اس وقت مہاجر مسلم لیگ کو ووٹ نہ دیتے تو نہ مسلم لیگ ہوتی نہ قائداعظم ہوتے نہ ہی پاکستان بنتا، مسلم لیگ کو ووٹ دینے کی پاداش میں ہندوتوا دہشتگردوں نے وہاں کے مسلمانوں پہ جو ظلم ڈھائے وہ آج بھی پیرپور رپورٹ اور شریف رپورٹ کی صورت تاریخ کا حصہ ہے، جب کوئی بھی قائداعظم اور دو قومی نظریہ کے ساتھ نہیں کھڑا تھا تو یہی وہ مہاجرین تھے جنہوں نے قائداعظم اور دو قومی نظریہ کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور قیام پاکستان کے بعد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءؑ کی مشترکہ سنت پہ عمل پیرا ہوتے ہوے اس نظریہ کی خاطر اپنا مال جائیداد، اپنا گھر بار چھوڑ کر اللہ اور اسکے رسولؐ کا نام لیکر چلے آئے، جو لوگ یہ طعنہ دیتے ہیں کہ پناہ دی پہلے وہ اپنا سندھی ہونا ثابت کریں، حقیقت تو یہ ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے سندھ پر ہندو طبقہ غالب تھا، لیاقت نہرو پیکٹ کے تحت جب انتقال آباد ہوا تو پاکستان بالخصوص سندھ سے بڑی تعداد میں ہندو انڈیا منتقل ہوے اور انڈیا سے مہاجرین پاکستان آئے جو اپنے ساتھ علم و ثقافت لیکر آئے، جن کی بدولت سندھ کے مقامی باشندے علم و آگہی کے شعور سے روشناس ہوے، جاہلانہ و فرسودہ رسومات سے چھٹکارہ ملا، تجارت، رہن سہن کے بہترین اصولوں سے واقف ہوے وگرنہ سندھ میں قرآن سے شادی، کاروکاری، قبائلی تکرار، وڈیرہ شاہی وغیرہ کے سوا تھا ہی کیا، زرداری صاحب جوکہ صدر پاکستان رہ چکے ہیں وفاق کی علامت ہیں نہ کہ سندھی یا بلوچ اور خطبہ حجتہ الوداع کے مطابق کوئی شخص خون و دولت کی بنیاد پر کسی سے افضل نہیں، عوام کو کسی بھی صورت لسانی منافرت کے جال میں نہیں پھنسنا چاہئے۔
ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ مختلف سیاسی لیڈران اس قسم کی اشتعال انگیزی کے زریعے ذاتی مفاد یا بیرونی مفاد کو ہی تقویت بخشتے رہے ہیں جبکہ نقصان صرف عام آدمی کا ہوا، اس لیے بحیثیت پاکستانی بحیثیت مسلمان یہ ضروری ہے کہ اپنے نفس کا مجاہدہ کرتے ہوے صرف اس امر کو ترجیح دیں جس سے قومی و ملی فائدہ ہو اور ایک قوم بن کر دوستی و دشمنی اور محبت و نفرت کے نظام کو درست و مضبوط بنائیں تب ہی ہم بہت سے فائدے حاصل کرسکتے ہیں، بھارت و اسرائیل جیسے دشمنوں کی سازشوں سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔