تاریخ کی زیادہ ورق گردانی کرنے کی ضرورت نہیں اور نا ہی یادوں پر سے گرد جھاڑنے کی ضرورت ہے، ابھی کچھ سال پہلے کی بات ہے جب اسامہ بن لادن کا نام ساری دنیا میں گونج رہا تھا اورجبکہ اسامہ بن لادن کوصرف شک اور الزام کی بنیاد پر خوف و دہشت کی علامت بنا دیا گیا تھا(جوکہ آج بھی راز ہی ہے)۔ بہر کیف عالمی دہشت گرد کا تمغہ اسامہ بن لادن کے سینے پر سجا دیا گیا اور پھر جو کچھ ہوا وہ آج حرف عام ہے۔ تمغہ عالمی دہشت گرد کی وجہ امریکہ میں ہونے والے 9/11 کے واقعات بنے جوکہ آج تک ساری دنیا کومحو حیرت رکھے ہوئے ہیں، ساری دنیا کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے آج بھی قاصر ہے۔ ان سفاک واقعات کی صورت میں دنیا کی آنکھوں پر اسلام دشمنی کاسیاہ چشمہ پہنا دیا گیا۔ آسائش پرست دنیا یہ سب سچ ماننے کو تیار ہوگئی۔ یعنی جیسا راگ آلاپا گیا جس بات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا سچائی سمجھ لیا گیا اورجسے مسلمانوں کو بدنام کرنے والی سازشوں میں سے ایک سازش قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سازش سے دنیائے اسلام کو کیا نقصان پہنچا اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہت کڑے دل سے لکھ رہا ہوں اور اختلاف رائے بھی رکھی جاسکتی ہے لیکن دنیائے اسلام سوائے دورانِ نماز کہ کبھی منظم نہیں دیکھائی دی، نماز میں بھی ادھر امام صاحب نے سلام پھیرا اور سب تتر بتر ہونا شروع، جو پہلی صف میں نماز پڑھ رہا تھا وہ بھی امام صاحب کے سلام پھیرتے ہی مسجد سے نکلنے کیلئے جیسے دوڑ ہی لگا دیتا ہے۔یعنی دنیا کو نظم و ضبط سکھانے والے انتھائی غیر منظم ہوکر رہ گئے۔
دنیا تو اپنے لئے مہذب ہوچکی، لیکن طاقتور ہر عمل تہذیب یافتہ کھلایا جانے لگا اور نئی اقدار جنم لینے لگیں، پھر طاقتور کو طاقت کا نشہ چڑھنے لگا اور اسنے اپنے آپ کو مہذب منوانے کیلئے دوسروں کو اپنی طرح کرنے کی ٹھان لی اور اس طرح سے سب کچھ الٹ پلٹ ہوتا چلا گیا۔ امریکہ سے متاثر ہوکر یا پھر اسکی ایماء پر بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کو عملی جامہ پہنا دیا دنیا کے منصف خاموشی سے یہ سارا تماشہ دیکھتے رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے بھارتی ہڈدھرمی اپنی انتہا ہو پہنچ گئی۔ انتہا پسند ہندو اب کھل کر اسلام دشمنی پر اتر آئے ہیں اور اب یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسلمانوں کا ناحق خون بہانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں یوں لکھوں کے درندوں سا برتاؤ سماجی میڈیا پر خوف و ہراس پھیلا رہا ہے۔ کیا کوئی مذہب ایسا کرنے کی اتنی کھلی اجازت دیتا ہے؟یقینا یہ سب جہالت اور بھوک نے ان ہندوؤں کو اس نہج پر پہنچایا ہے یہ آلاکار بنے ہوئے ہیں ان لوگو ں کہ وقتی مفادات کی خاطر ان بھوکے اور جاہل ہندوؤں کو استعمال کررہے ہیں۔ اس میں اب کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کہ تحت ہورہا ہے یا پھر قدرت اس طرح سے مسلمانوں کو جگانا چاہتی ہے(دعا ہے کہ ایسا ہی ہو)۔
دنیا پر حکومت کرنے کے شوق میں کچھ ممالک دنیا کو تباہی کی جانب دھکیل رہے ہیں جس میں پہلے ہی امریکہ اپنا بھرپور حصہ ڈال چکا ہے۔ عراق، لیبیاء، یمن، افغانستان، شام اور فلسطین امریکہ کے ظلم کی تصویر بنے ہوئے ہیں جہاں امریکہ نے اپنی مرضی کی جمہوریت نافذ کرانے کیلئے ان ممالک کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور اب ان ملکوں میں اقتدار کے بھوکے لڑمر رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سارے ملک اسلام کے ماننے والوں کے ہیں۔
مسلمانوں نے ہمیشہ ذاتی مفادات کی بنیاد پر پیش قدمی کی جس کیلئے انہوں نے امت یا قومی مفادات کو بیچتے ہوئے یہ بھی نہیں دیکھا کہ وہ غیر مسلموں کہ ہاتھوں اپنے اسلامی بھائیوں کا سودا کررہے ہیں۔ ہم آج ٹھنڈے کمروں میں دبیز صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے انگلیوں میں سگریٹ سلگائے سامنے میز پر کافی رکھے ان کشمیریوں کہ غم و الم میں شریک ہونے کا دعوا کر رہے ہیں جو پچھلے ۵۱ دنوں سے اپنے اپنے گھروں میں محصور ہیں، ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کیا کھا رہے ہیں وہ کیا پی رہے ہیں، جو بیمار ہیں انکی دواؤں کا کیا ہورہا ہوگا، انکے بند دروازے کبھی بھی توڑے جاسکتے ہیں انکے سامنے انکی عزتیں تار تار کی جارہی ہونگی، ہم کہاں انکے دکھوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں تو کہنے والوں نے تحریک آزادی پاکستان کے مہاجرین کی ہتک آمیز الفاظ میں توہین کی ہے کہ وہ بھاگ کر آئے ہیں بھلا ایسے لوگ کشمیریوں کا دکھ کیا سمجھ سکتے ہیں انکا دکھ تو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں ۷۴۹۱ میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو چھرے چاقوؤں سے کٹتے دیکھا تھا، جنہوں نے کتنے ہی علی اصغروں کو نیزوں پر چڑھتے دیکھا تھا اور سابق صدر پاکستان نے کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ آپ تو بھاگ کر آئے تھے۔ خدارا آج جب سرحد کے اس پار مار کھاتے مسلمانوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا کہ پاکستان کا ساتھ نا دیکر ان سے تاریخی غلطی ہوئی ہے تو آپ کو ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہئے تھا، آج جب کشمیر کا بچہ بوڑھا نوجوان آزادی کا نام لیکر جان سے گزر جاتا ہے تو آپ اپنے وطن کی آزادی کیلئے جانوں کا نظرانہ پیش کرنے والوں کیلئے ایسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ساری باتیں دھرانے کا مقصد ایسی سوچ رکھنے والوں کو باور کرانا ہے کہ آپ کو آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملی ہے یا ایسا نہیں ہوا کہ ہمارے آباؤ اجداد وہاں سے کھیلتے کودتے بھاگے اور پہلے کون پاکستان پہنچے گا کی شرط لگا کر پہنچ گئے۔ خون کا آخری قطرہ تک اس وطن کو پر نور کرنے کیلئے دیا ہے، لاکھوں جانوں کا صدقہ ہے یہ ملک۔ ہم خوب سمجھتے ہیں آزادی کی جدوجہد کیا ہوتی ہے کیسے اپنی آسائشوں کو بالائے طاق رکھنا ہوتا ہے کیسے موت کی آنکھوں میں ڈال کر آنکھوں کو نکالنا ہوتا ہے۔
آج معلوم نہیں کشمیری جوانوں کو انکے بوڑھے ماں باپ کے سامنے سے اٹھا کر لیجاکر انکے ساتھ کیا کر رہے ہیں، آج معلوم نہیں کشمیرکی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کیساتھ یہ درندہ صفت بھارتی بھیڑئے کیا کر رہے ہیں؟؟ہم سب تو بس یہاں زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں، سماجی میڈیا اور میڈیا پر بیٹھ کر زبانی جمع خرچ کررہے ہیں، وہاں یقینا محمد بن قاسم کو پکار رہی آوازیں گونج رہی ہونگی۔ ہم دعا کر رہے ہیں کہ یا رب کائنات میرے ہاتھ میں جو قلم ہے اس سے الفاظ کی بجائے گولیاں نکلنے لگیں بلکہ گولے نکلنے لگے تاکہ وہ تمام جو ہماری طرح آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں، کوئی انہیں سمجھائے کہ کشمیر اسطرح سے آزاد ہونا ہوتا تو کب کا آزاد ہوچکا ہوتا کیونکہ اس سے پیشتر بڑے بڑے معاہدے ہوئے بڑی بڑی کانفرنس ہوئیں۔ مسلۂ الجھتا ہی چلا گیا۔
سب سے پہلے پاکستان میں موجود تمام سیاسی سماجی اور مذہبی جماعتیں و تنظیمیں کشمیر کی آزادی کے موقف پر ایک ہوجائیں نا ایک لفظ ادھر اور نا ایک لفظ ادھر، پھر یہ سب مل کر دنیا میں شور مچادیں کہ بھارت ساری دنیا کو اپنے سمیت تباہی کی طرف بہت تیزی سے دھکیل رہا ہے۔ حکومت وقت نے کشمیر کی تحریک میں نئی روح پھونک دی ہے اب ایک خط ساری دنیا کے حکمرانوں کو لکھا جائے جس میں بھارت کی درندگی کا بھرپور تذکرہ کیا جائے جس میں کشمیریوں کی مظلومیت کا ماتم رقم کیا جائے اور اس پر حکومت اور حکومت مخالف سب اپنی رضامندی کے دستخط کریں تاکہ دنیا کو یہ یقین تو ہوجائے کہ پاکستان کشمیر کی آزادی کیلئے ایک ہوچکا ہے اور پاکستان اب اپنے اس فیصلے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹنے والا۔ انشاء اللہ یہ ایکتا کی طاقت ساری دنیا کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکے گی اور کشمیر میں اقوام متحدہ کی افواج قیام امن کیلئے جلد ہی پہنچ جائینگی۔ بصورت دیگر پاکستان دنیا کو حیران کرنے کی بھر پور خداداد صلاحیت رکھتا ہے اور پاکستان کی فوج ہی نہیں بلکہ ایک ایک بچہ اس کام کیلئے اپنی خدمات دینے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ کیونکہ مسلمان مرنے سے نہیں ڈرتا۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔