ہمارے خیالات ہماری مستقبل کا آئینہ دار ہوتے ہیں! (میر افضل خان طوری)

کبھی کبھا ہم خود سے وہ سلوک کرتے ہیں جو ہمارے بڑے اور سماج پہلے سے ہم سے کرتی آ رہی ہوتی ہے۔ وہ لوگ جس طرح سے ہم کو بچپن سے سمجھ رہے ہوتے ہیں ہم بھی خود کو ویسا ہی سمجھنے لگتے ہیں۔

ہمارا لا شعور اسی چیز کو قبول کرتا ہے جو کچھ ہم اسے فیڈ کر رہے ہوتے ہیں۔ تو اس طرح ہم اپنے یا اپنی زندگی کے بارے میں جو بھی عقیدہ رکھتے ہیں وہی ہمارے لیے حقیقت بن جاتا ہے۔

والدین اور سماج بچپن سے ہمارے لئے جس سلوک کا انتخاب کرتے رہے ہوتے ہیں ہم بڑے ہوکر اپنے ساتھ اسی طرح کے سلوک کا انتخاب کرتے ہیں ۔ ہم خود سے اسی طرح محبت کر رہے ہوتے ہیں جس طرح محبت ہمیں بچپن میں ملی ہوتی ہے۔ ہم اسی طرح خود کو حوصلہ دیتے ہیں جس طرح کا حوصلہ ہمیں بچپن سے ملا ہوتا ہے۔

جب ہم سے کہا جاتا ہے کہ تم کبھی اچھا کام نہیں کر سکتے۔ یہ سب تمہاری غلطی ہے تو ہم بھی اسی طرح خود کو سزا دینے لگتے ہیں۔ اور خود سے اسی طرح انتقام لے رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم نے بہت ہی بہترین کیا۔ تم اس سے بھی زیادہ بہترین کام کر سکتے ہو۔ تم ہمیشہ بہتر سے بہترین کی طرف جا سکتے ہو تو ہم اپنے آپ کو بالکل اسی طرح سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا لاشعور اسی ڈیٹا پر کام کرنے لگتا ہے۔

ہم اپنے بارے میں جو کچھ سوچتے ہیں وہ ہمارے لیے سچ بن جاتا ہے۔ جن لوگوں کو اپنے والدین بچپن میں کاہل نکما اور کند ذہن جیسے الفاظ سے پکار رہے ہوتے ہیں وہ لوگ بڑے ہوکر بھی خود کو اسی طرح ہی سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کا لاشعور خود کار طور پر اسی فیڈ کی ہوئی ڈیٹا پر عمل کرتا ہے۔

ہم میں سے ہر ایک انسان اپنے ساتھ ہونیوالی اچھائی اور برائی کا خود ہی زمہ دار ہوتا ہے۔ ہماری ہر سوچ اور خیال ہمارے مستقبل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ہماری سوچ ہی ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے۔ ہمارے خیالات اور الفاظ تجربات کو جنم دیتے ہیں۔ ہم اپنے خیالات اور الفاظ کے خود ہی مالک ہیں۔ ہماری جگہ کوئی بھی نہ سوچ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ہمارے لئے بول سکتا ہے۔
ہم حال میں رہ کر اپنے ماضی کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ ماضی ختم ہو چکی ہے۔ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا اس کو ہم تبدیل نہیں کر سکتے۔

اکثر ہم ماضی کے خیالات کو حال میں لاتے ہیں اور اسی طرح ہم ماضی میں کسی غلطی کی سزا خود کو حال میں دے رہے ہوتے ہیں۔ ماضی میں کسی کی بری بات کو ہم اکثر اوقات حال میں بار بار دھرتے ہیں۔ ہم ایسے خیالات سے صرف اپنی زندگی اور صحت کو برباد کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کبھی کبھار ہم اپنے ماضی کے کسی غلط بات کو دہرا دہرا کر خود کو سزاوار ٹہرا رہے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہماری صحت اور زندگی پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ہاں ہم ماضی کے بارے میں اپنی سوچ اور خیالات کو ضرور تبدیل کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اس کا پورا پورا اختیار بھی ہے۔ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ہم خود اپنے آپ کو معاف کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ جب ہم اپنے آپ کو معاف کر دیتے ہیں تو پھر دوسروں کو معاف کرنے کا راستہ بھی ہموار ہو جاتا ہے۔جب ہم اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں ،خود اپنے آپ پر بھروسہ اور اعتماد کرنے لگتے ہیں تو تب ہی ہم دوسروں سے محبت کرنے اور ان پر بھروسہ و اعتماد کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ معاف کرنے سے ہمارے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجاتے ہیں اور ہماری اذیتوں میں بہت حد تک کمی واقع ہو جاتی ہے۔

یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ہم سب سے پہلے اپنے بارے میں اپنی سوچ کو تبدیل کر دیتے ہیں اور حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوتے اپنے خیالات میں جدت کا سفر اختیار کرتے ہیں۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں