باجوہ کی ایکسٹینشن بھارتی خواب چکنا چور! (انشال راؤ)

موجودہ زمانے میں میڈیا وہ ہتھیار ہے جو ذہنوں کو مکمل کنٹرول اور قبضے میں لیکر خوش گمانی و بدگمانی کا مدار بنا ہوا ہے، اچھا اور مفید اسی کو سمجھا جاتا ہے جسے میڈیا اچھا دکھائے اور برا اسے گمان کیا جاتا ہے جسے میڈیا برا بنا کر پیش کرے، اس ضمن میں پرنٹ میڈیا جس ذمہ داری کے ساتھ ملک و قوم کی بہتری و ترقی کے لیے کام کر رہا ہے دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی، جنرل باجوہ صاحب کی ایکسٹینشن کو ہی لے لیں کہ اس کو بنیاد بنا کر کس قدر شور مچایا گیا اور بلیک اینڈ وائٹ طبقہ مخصوصہ نے جم کر وزیراعظم کو ہدف تنقید بنایا جبکہ وہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک و قوم کو اس وقت کن چیلنجز کا سامنا ہے، خیر ہر شخص کو اظہار رائے کا حق ہے مگر کسی بھی بات کی مخالفت یا حمایت کی کوئی نہ کوئی وجہ، سبب، دلیل ضرور ہوتی ہے لیکن طبقہ مخصوصہ کے پیٹ کا مروڑ مخالفت برائے مخالفت سے زیادہ کچھ نہیں۔

ماضی حال مستقبل آپس میں یوں مربوط ہیں کہ کسی بھی فعل کو چانچنے کے لیے ماضی کو سامنے رکھ کر مستقبل کی حکمت عملی و اہداف حاصل کرنے کے لیے حال میں فیصلے لیے جاتے ہیں بعینہ باجوہ صاحب کی ایکسٹینشن پر بات کرنے سے پہلے پچھلے تین سال کو دیکھنا ہوگا، اس مختصر کالم میں مکمل تفصیلات و جزویات کو تو شامل نہیں کیا جاسکتا البتہ سطحی طور پہ کچھ ضروری بات کرنے کی کوشش کرونگا، آج سے تین سال پہلے جب جنرل باجوہ نے بطور آرمی چیف منصب سنبھالا تو وہ کونسا مسئلہ تھا جس کا پاکستان کو سامنا نہ ہو، اولاً یہ کہ جنرل راحیل شریف کے دور میں چلنے والا آپریشن اور اس سے بڑھ کر بلوچستان میں بیرونی مداخلت سے شورش کا شدید ترین سامنا تھا، ثانیاً لاقانونیت، کرپشن، منی لانڈرنگ، ثلاثاً خارجہ پالیسی نہ ہونے کے مترادف تھی نتیجتاً پاکستان عالمی سطح پہ تنہائی کا شکار تھا۔

مشرقی بارڈر تو ہمیشہ سے ہی غیرمحفوظ تھا ہی مگر مغربی بارڈر کی صورتحال اس قدر ابتر تھی کہ پورے ملک کو اس طرف سے بدامنی کا سامنا تھا، سب سے بڑا خطرہ میڈیا و سوشل میڈیا کے زریعے ذہنی تخریب کاری کی وجہ سے پیدا ہوگیا تھا اور ان سب سے بڑھ کر عالمی سازش و بیرونی پریشر تھا، اگر باجوہ صاحب کے پچھلے تین سالوں کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ پاکستان نے “Do More” کا جواب “No More” سے دیا، اس کے علاوہ غزوہ خندق کی سنت پہ عمل کرتے ہوئے مغربی بارڈر پر باڑ لگا کر ایک طرف تو ڈیورنڈ لائن کے تنازعے کو ہی ختم کردیا دوسری طرف کراس بارڈر دہشتگردی کی روک تھام کا بندوبست بھی کرلیا جس کا کچھ حصہ رہتا ہے جو انشاء اللہ بہت جلد تکمیل کو پہنچ جائیگا، جس کے ساتھ ہی دشمنوں کے مذموم عزائم خاک میں مل جائینگے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ فی الوقت بھارت و دیگر دشمن قوتوں کا مرکز افغانستان بنا ہوا ہے۔

معروف قانون دان و دانشور اے جی نورانی نے اپنی کتاب “RSS, A Menace To India” میں بہت سے انکشاف کیے ہیں جس کے مطابق RSS کی 100 سے زائد شاخیں ہیں جو الگ الگ میدان میں سرگرم ہیں جن میں اس کا اوورسیز منچ بہت اہم ہے ہندوستان سے باہر چالیس سے زائد ممالک میں اس کی شاخیں ہیں جنکا R&AW سے منظم ورکنگ کوآرڈینیشن ہے، امریکہ برطانیہ و دیگر یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ عرب ممالک میں خاصی سرگرم ہیں اور مختلف سیاسی و تاجر حضرات سے گٹھ جوڑ قائم کرتی ہیں، ان کی ایک اہم شاکھا یعنی یونٹ جو پاکستان میں بدامنی میں پیش پیش ہے کینیا میں قائم ہے جو ساوتھ افریقہ سمیت مختلف افریقی ممالک کو کنٹرول کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ ساوتھ افریقی نیٹ ورک اکثر و بیشتر میڈیا کی سرخی اور رینجرز و قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹ بنا رہتا ہے۔

اس کے علاوہ آج کل ان کا زور و شور افغانستان میں ہے جہاں ان کے درجن سے زائد شاکھائیں ہیں اور ساتھ ہی مسلم راشٹریہ منچ بھی قائم کررکھا ہے جو را کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشتگردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ BJP کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل RSS ہی ہے اب جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن سے سب سے زیادہ زد بھارتی مفادات کو پہنچی ہے کیونکہ اب مودی سرکار کو اندرون پاکستان اس کے مذموم خواب پورا ہونے کے چانسز زیرو نظر آرہے ہیں جیسا کہ ایک بار پھر سے شور بپا ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن واپس آگئی درحقیقت اس کا مطلب اینٹی پاکستان ڈاکٹرائن ICU شفٹ ہوگئی ہے، یہ جنرل باجوہ ہے تھے جنہوں نے حکومت کے ساتھ ایک بہترین کوآرڈینیشن ایک بہترین ٹیم ورک کے زریعے پشتون نیشنلزم کے نام پہ اٹھنے والے گڑھے مردے کو انتہائی صبر و خوش اسلوبی سے دبایا، سندھ میں سندھی نیشنلزم کو اٹھانے کی کوشش کو ناکام بنایا، بلوچ لبریشن آرمی کو بہترین حکمت عملی سے کالعدم قرار دلوانے میں اہم رول ادا کیا۔

بھارتی جارحیت کو دنیا میں بےنقاب کرنے میں کامیابی حاصل کی، ان سب سے بڑھ کر افواج پاکستان اور نظریہ پاکستان پر جو نظریاتی حملے ہوے انہیں “سانپ بھی مرگیا لاٹھی بھی نہ ٹوٹی” کے مصداق مات دی، اس کے علاوہ نظریہ پاکستان کو ایک بار پھر اسی طریقے سے زندہ کردیا جس طرح قیام پاکستان کے وقت جوش و جذبہ تھا، اس میں الیکٹرونک میڈیا بالخصوص ARY, Sama, BOL, AAP, 92 News, NewsOne وغیرہ بہت زبردست کردار ادا کیا اور ان سے بڑھ کر پرنٹ میڈیا نے جتنی ذمہ داری سے حق ادا کیا دنیا میں اس کی مثال ملنا شاید ہی ممکن ہو، ان سب کو مد نظر رکھتے ہوے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہائی اسکول، کالج و یونیورسٹی کی سطح پر ایڈیٹوریل پیجز سے کسی بھی ایک یا دو ملکی مفاد میں لکھے گئے بہترین کالمز کو پڑھایا جائے تاکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کے نظریاتی حملوں کا اندیشہ ہی پیدا ہی نہ ہونے پائے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں