صدیاں بیت جانے کے باوجود پروپیگنڈہ ایسا کارگر اور مہلک ہتھیار ہے، زمانہ قدیم میں پروپیگنڈے کے لیے ٹیمیں تشکیل دیکر مختلف علاقوں میں بھیج دی جاتی تھیں جو زبانی کلامی یہ کام سرانجام دیتے تھے جسکے نتائج بہت عرصے میں حاصل ہوتے تھے مگر آج مواصلاتی ترقی کے دور میں میڈیا اور انٹرنیٹ نے پروپیگنڈے کو پہلے سے زیادہ موثر اور خطرناک حد تک قوت بخش دی ہے۔
بھارت پاکستان کے خلاف عرصہ دراز سے مسلسل پروپیگنڈہ کرتا آرہا ہے، بھارتی پروپیگنڈے کے باعث پاکستان ناقابل تلافی نقصان برداشت کرتا آرہا ہے، FATF کے ذیلی گروپ APG کی میٹنگ کے بعد روایتی ہتھیار کا استعمال کرتے ہوے بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ شروع کردیا، RSS کی پروپیگنڈہ مشین کا درجہ پانے والے بھارتی میڈیا و زبردستی کے صحافیوں کی جانب سے بےبنیاد دعوے کیے جاتے رہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرلیا گیا اور نریندر مودی کو اس کا کریڈٹ دیکر ہیرو بناکر پیش کیا جاتا رہا۔
حکومت پاکستان اور پاکستانی میڈیا نے بھارتی پروپیگنڈے کو جھوٹا اور بےبنیاد ثابت کرکے ساری دنیا میں ایک بار پھر بھارتی میڈیا کو بےنقاب کردیا، جھوٹ و سنسنی پھیلانے میں بھارتی میڈیا کا کوئی ثانی نہیں حتیٰ کہ اب بھارتی عوام بھی انڈین میڈیا کے دوہرے معیار اور غیرذمہ دارانہ پن کی وجہ سے بیزاری و عدم یقینی کا اظہار کرتی نظر آتی ہے، سینٹر فار ریلیجیس فریڈم امریکہ کے سینئر فیلُو پال مارشل کے مطابق “BJP جب پہلی بار 1998 میں اقتدار میں آئی تو انڈین اطلاعات و نشریات کے محکمے میں اہم عہدوں پر RSS و ویشنو ہندو پریشد کے کارکنوں کو بڑی تعداد میں بھرتی کیا” جسکے باعث بھارتی میڈیا براہ راست سنگھ خاندان یعنی ہندوتوا آرگنائزیشنز کے زیر اثر آگیا اور BJP و RSS میڈیا کو بطور پروپیگنڈہ مشین کے استعمال کرنے لگی۔
معروف بھارتی انویسٹیگیٹو جرنلسٹ پیوش کی ٹیم نے اسٹنگ آپریشن میں بھارتی میڈیا کی کریڈیبلٹی کو بے نقاب کرکے رکھ دیا جسکے مطابق بھارتی میڈیا پیسے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں، ایک اور آپریشن میں کوبرا پوسٹ نے یہ ثابت کیا کہ 90 فیصد بھارتی میڈیا اس وقت BJP کی پروپیگنڈہ مشین ہے یہی وجہ ہے کہ معروف بھارتی اداکارہ و ڈائریکٹر نندیتا داس نے بھارتی میڈیا کو BJP کی پروپیگنڈہ مشین قرار دیا، درحقیقت نام نہاد بھارتی میڈیا اب صحافت کے نام پر بدنما داغ بن کر رہ گیا ہے اور عالمی سطح پر اپنی ساخ کھوچکا ہے جس کا اندازہ اس جھوٹے دعوے سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ایک جھوٹے سرجیکل اسٹرائیک میں 350 افراد کے جانبحق ہونے کی خبر چلا کر نریندر مودی کو ہیرو بناکر پیش کرتا رہا مزید یہ کہ جنگ کے لیے سنسنی پیدا کرتا رہا جس پر عالمی شہرت یافتہ امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ “Many reports run by Indian Media were contradictory, biased, uncendiary & uncorreborated” صرف اتنا ہی نہیں بھارتی میڈیا کے جنگی جنون و پروپیگنڈہ کو دیکھ کر Foriegn Policy جریدے نے لکھا کہ “If India & Pakistan ever resolve their conflict, it won’t be thanks to indian media” اسکے علاوہ pseudo media کے پروپیگنڈے اور جنگی جنون سے بیزار آکر انڈین سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ و دانشور بھارتی نام نہاد جرنلسٹوں و اینکرز کو Humiliated Military, extremist leaders, leashed media جیسے القابات سے نوازتے ہیں اس سے بڑھ کر RSS کی پروپیگنڈہ مشین کی ڈھٹائی کیا ہوگی کہ ساری دنیا ایک طرف اور بھارتی میڈیا ایک طرف ہے کشمیر میں بھارتی حکومت و فوج کی جارحیت اور بنیادی حقوق کی پامالی کو احسن اقدام قرار دیتے نہیں تھکتے، یہ درحقیقت صحافی نہیں بلکہ اب ہندوتوا بریگیڈ کے پیڈ ورکرز ہیں جو پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوے بھی پاکستان نے اس کے زور کو توڑنے و جوابی حکمت عملی کے لیے کوئی سنجیدہ حکمت عملی نہیں بنارکھی، جب کبھی بھارت کی طرف سے بےبنیاد منظم پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے تو پاکستان صرف صفائیاں دینے تک ہی محدود رہتا ہے ایسا ہی کچھ کل کے FATF میں بلیک لسٹ ہونے کے پروپیگنڈے میں دیکھا گیا جبکہ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر ہونا چاہئے۔
کشمیر ہی کو لے لیں کارگل جنگ سے پہلے کنٹرول لائن ایک عارضی بارڈر ہی ہوا کرتا تھا مگر بھارتی پروپیگنڈے کا موثر جواب نہ دیے جانے کے باعث پاکستان آرمی کو راگ آرمی کہا گیا جوکہ حقیقتاً ہماری حکومتی و قومی کمزوری تھی اس کے علاوہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ظلم و بربریت کو چھپانے کے لیے پاکستان پر عسکریت پسندوں کی مدد کا الزام لگاکر دبانے کی کوشش کرتا آرہا ہے جوکہ محض پروپیگنڈہ ہے جبکہ ہمارے خودساختہ دانشور اور موم بتی مافیا کا یہ حال ہے کہ وہ بھی اس دوڑ میں شامل ہوکر بھارتی میڈیا کا حصہ بن جاتے ہیں، اس صورتحال کے پیش نظر اب حکومت کو اس طرف بھرپور توجہ دینی ہوگی خصوصی طور پر انگلش میڈیا کے ساتھ ساتھ عربی، ہسپانوی و دیگر اہم زبان میں میڈیا کو ترجیحی بنیادوں پر میدان میں لانا ہوگا تاکہ دیگر اقوام ہمارے موقف سے بخوبی آگاہ ہوسکیں۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔