نواب اکبر شہباز خان بگٹی بارکھان کے علاقہ حاجی کوٹ میں 12جولائی 1927 کو پیدا ہوئے جہاں ان کا ننھیال تھا ان کی والدہ محترمہ جن کا تعلق کھیتران بلوچ خاندان سے تھا اور ان کا نام بہت تلاش کے باوجود نہ مل سکا۔ نواب صاحب کے والد کا نام نواب محراب خان بگٹی اور دادا کا نام سر شہباز خان بگٹی تھا۔ نواب اکبر بگٹی صاحب کا نام ان کے دادا کے نام پر شہباز خان بگٹی رکھا گیا جو بعد میں اکبر شہباز خان بگٹی اور آخر میں نواب اکبر خان بگٹی ہو گیا۔ 1939 میں ان کے والد کی وفات کے بعد بگٹی قبیلہ کے سردار بنائے گئے۔ 1946 میں تعلیم مکمل کرکے سرداری کی تمام تر ذمہ داری سنبھال لی۔
نواب اکبر بگٹی سندھ اور بلوچستان کے شاہی جرگہ کے رکن رہے۔
1951 میں وہ گورنر جنرل کے مشیر بنے۔
2 جون 1953 کو جب موجودہ ملکہ برطانیہ اور تب کی پاکستان کی بھی ملکہ ایلزبتھ دوم کی تاجپوشی کی تقریب ہوئی تو نواب اکبر بگٹی اس تقریب میں پاکستان کی جانب سے شریک ہوئے(کچھ مورخین کے مطابق وہ ذاتی حیثیت میں مدعو کیے گئے تھے)۔
1958 میں وہ وفاقی وزیر مملکت بنائے گئے ان کے پاس دفاع اور داخلہ کی وزارتیں رہیں۔
جنرل ایوب خان کے دور اقتتدار میں اکبر بگٹی صاحب کو دیگر بلوچ رہنماؤں کے ساتھ پھانسی کی سزا سنائی گئی جسے ذوالفقار علی بھٹو کی کوشش سے پہلے عمر قید میں بدل دیا گیا اور بعد میں معافی دے کر رہا کر دیا گیا۔ اس بغاوت کی قیادت کرنے والے بزرگ نواب نوروز خان زہری کی سزائے موت کو بھی عمر قید میں تبدیل کردیا گیا تھا وہ حیدرآباد جیل میں ہی وفات پا گئے تھے۔ بوقت گرفتاری ان کی عمر پچاسی(85) سے نوے(90) سال تھی۔ ان سے حکومت پاکستان نے قرآن پاک پر معاہدہ کر کے صلح کی تھی جس کے بعد انہیں دھوکے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ سزا پانے والے نواب نوروز خان زہری کے بیٹے بوٹے خان زہری سمیت غلام رسول نیچاری اور سبزل خان کو سکھر جیل اور جمال خان زہری، بہاول خان موسیانی، ولی محمد زرکئی اور مستی خان موسیانی کو حیدرآباد جیل میں 15 جولائی 1960 کو پھانسی دے دی گئی۔ اس شورش کا آغاز قلات کے علاقے کی سے بغاوت کے اعلان کی وجہ سے بتایا جاتا ہے۔ جبکہ اس کی بنیادی وجہ ایک واقعہ بنا جس میں ایک خاتون جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اسے کارو کاری کے الزام میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان خاتون کی شلوار کو بطور مال مقدمہ انتظامیہ کی جانب سے طلب کر لیا گیا تھا جس پر بلوچیوں نے ایسے نظام سے بغاوت کر دی تھی۔
نواب اکبر بگٹی نیشنل عوامی پارٹی کے رکن رہے۔ ایبڈو قانون کے تحت نااہل ہونے پر وہ 1970 کے انتخابات میں حصہ نہ لے سکے لیکن انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی کی بھرپور حمایت کی۔ ان کی جماعت صوبہ بلوچستان میں اقتتدار میں آئی مگر نواب صاحب کے اس جماعت سے اختلافات ہو گئے۔ انہوں نے ڈھاکہ جا کر شیخ مجیب الرحمن کے مطالبات کی حمایت کی۔
10 فروری 1973 کو پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے اسلام آباد سے روسی اسلحہ و بارود برآمد کرنے اور اس کے ایران اور پاکستان کے خلاف استعمال کیے جانے کا اور بلوچستان حکومت کا اس میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیا۔ جس کے بعد سردار عطاﷲ مینگل صاحب کو وزارت اعلیٰ اور میر غوث بخش بزنجو کو گورنری سے ہٹا کر 15 فروری 1973 کو نواب اکبر خان بگٹی کو گورنر بلوچستان بنا دیا گیا۔
اسی دوران نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف آپریشن کی شروع ہونے کی بھی اطلاعات آتی رہی۔ بلوچ رہنما اس اقدام سے ناراض ہو کر اپنے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے گئے۔ بلوچستان میں آپریشن ہوتا تو نواب صاحب ہی کے حکم اور ان ہی کی قیادت میں ہونا تھا۔ اسی لیے شاعر عوام حبیب جالب صاحب نے کوئٹہ میں بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کنونشن میں کہا
سنو بھائی اکبر بگتی
میں بات کہوں یہ چکتی
جمہوری تحریکیں
گولیوں سے نہیں رکتی
انہوں نے ہی تب پنجاب کے عوام کو مخاطب کر کے یہ بھی کہا تھا کہ
اثھو پنجاب کے لوگو
بلوچستان جلتا ہے
بلوچستان جلتا ہے
تو پاکستان جلتا ہے
بالآخر 3 جنوری 1974 کو نواب اکبر خان بگٹی نے گورنری سے استعفٰی دے دیا۔
1975 میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی گئی اور خان عبدالولی خان، نواب خیر بخش مری، سردار عطاﷲ مینگل، میر غوث بخش بزنجو، شاعر عوام حبیب جالب، معراج محمد خان، ارباب سکندر خلیل، علی بخش تالپور اور صدیق بلوچ سمیت نیپ کے 89 رہنماؤں پر بغاوت سمیت مختلف سنگین مقدمات قائم کیے گئے۔
4 فروری 1989 کو نواب اکبر بگٹی وزیر اعلٰی بلوچستان منتخب ہوئے وہ 6 اگست 1990 کو اسمبلیاں تحلیل ہونے تک اس منصب پر فائز رہے۔
1993 میں انہوں نے نئی جماعت جمہوری وطن پارٹی قائم کی اور اسی جماعت کی جانب سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
(جاری ہے)
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔