بزرگوں سے ایک واقعہ سنا تھا جو وقت کہ ساتھ ساتھ مختلف زبانوں سے آج تک جاری و ساری ہے، واقعہ کچھ یوں تھا کہ ایک بزرگ کی مزار پر ایک اندھا اپنی بینائی کیلئے خدائے بزرگ و برتر سے دعا کر رہا تھا اس مزار پر وقت کے بادشاہ کا آنا ہوا جس پر بادشاہ کے استفسار کرنے پر اندھے نے بتایا کہ وہ عرصہ دراز سے یہاں بیٹھا اپنی بینائی کی دعا مانگ رہا ہے لیکن ابھی تک اسکی دعا قبول نہیں ہوئی، بادشاہ نے فقیر کی بات سن کر اس سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں مزار سے فاتحہ پڑھ کر واپس آتا ہوں اگر اتنی دیر میں تیری بینائی نہیں آئی تو تیرا سر تن سے جدا کروا دونگا، یہ کہہ کر بادشاہ نے اپنی راہ لی۔اندھے کو جو اپنی یقینی موت دیکھائی دی تو اسنے اب جو دعا مانگنی شروع کی تو وہ انتہائی خالص اوردل کی گہرائیوں سے نکلی اور مقبول ہوئی۔ بادشاہ واپس آیا تو دیکھا کہ اندھا اب اسے دیکھ سکتا تھا جس پر بادشاہ نے اسے بتایا کہ دعا جب تک دل سے سچی لگن سے اور رب کی ربوبیت پر کامل یقین رکھتے ہوئے نا مانگی جائے تو وہ صرف اور صرف لب کشائی ہوتی ہے دعا نہیں بنتی۔ یہ فلسفہ ہر معاملے پر لاگو ہوتا ہے، عشق اور جنون کچھ نا کچھ ضرور حاصل کرلیتے ہیں اور اپنا آپ تو منوا ہی لیتے ہیں۔ جب تک انسان کا کام چلتا رہتا ہے وہ دعا کو بطور ایک رسم ادا کرتا رہتا ہے اور جیسے ہی اس کا کام چلنا یعنی گزارا ہونا بند ہوجاتا ہے پھر وہ حقیقی معنوں میں بغیر کسی اضافی ذرئع کہ مکمل یکسوئی کیساتھ ہاتھ اٹھائے بغیر اپنے رب سے رجوع کرتا ہے اور یہ رجوع حقیقی دعا کی شکل میں آسمانوں کا سینہ چیرتی ہوئی خالق حقیقی تک پہنچتی ہے۔
دنیا مادہ پرستی کی حدوں کو چھو رہی ہے، مفادات تعلقات کی بنیاد، مادے کی بنیاد، پر استوار ہورہے ہیں۔ دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے اور جہاں آسائشوں اور سہولیات کی بہتات ہے وہاں تو شائد موت کا تصور بھی نہیں کیاجاتا۔دنیا میں طاقت کا توازن ہمیشہ سے ہی بگڑا ہوا ہے یہ بھی قدرت کی ایک ایسی آزمائش ہے کہ طاقت والوں نے قدرت سے ہی منہ موڑ لئے ہیں۔ یو ں تو دنیا کی تقسیم کی بہت ساری وجوہات پر ہیں کہیں بادشاہوں کے ذاتی مفادات ہیں تو کہیں سرحدی تکازے اپنی سرحدوں میں قید رہنے کا تکازہ کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔
دنیا میں ۴۵ مسلم ممالک ہیں اور ان میں رہنے والے مسلمانوں کی گنتی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے، لیکن دنیا درپردہ اس بات کی معترف ہو چکی ہے کہ جنوبی ایشیاء میں واقع پاکستان جس کا وجود میں آنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں۔ یہاں کے بسنے والے بائیس کڑوڑ مسلمان باقی دنیا کے مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ یہ آپس میں بھی لڑتے ہیں یہ علاقائی زبانوں میں بھی تقسیم ہیں، یہ جغرافیائی تقسیم پر بھی بحث مباحثے کرتے ہیں،انکے باہمی بے تحاشہ مسائل ہیں، یہ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کیساتھ کوئی زیادتی یا ناانصافی ہوتی ہے تو یہ ان کیلئے ایک آواز میں لبیک ضرور کہتے ہیں، جب کبھی بھی پاکستان کی بقاء و سالمیت کی بات آتی ہے تو یہ بائیس کڑوڑ پاکستانی ایسے ہوجاتے ہیں کہ جیسے انکے درمیان کوئی باہمی اختلاف ہے ہی نہیں۔ یہ دنیا کو اپنی اس یگانگت سے بہت بار خوفزدہ بھی کر چکے ہیں۔ دنیا بارہا تسلیم کر چکی ہے کہ پاکستانی دنیا کو حیران و پریشان کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور گاہے بگاہے کسی نا کسی فورم پر کوئی پاکستانی امتیازی حیثیت میں نظر آہی جاتاہے۔ بدقسمتی سے پاکستانیوں نے اپنے لئے جو حکمران چنے درحقیقت وہ پاکستانیوں پر حکمرانی کے اہل نہیں تھے لیکن اقتدار کا نشہ اور اس کے نتیجے میں ملنے والی طاقت کا نشہ، سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیا اور عوام کی ایسی حالت کرکے رکھ دی کہ بھلے عوام کی آواز نکلے یا جیسی بھی نکلے انکے حق میں ہی نکلے(پاکستانیوں نے اپنی سوچیں اپنی آوازیں قید کروا رکھی ہیں)۔ جس کا عملی مظاہرہ ابھی تک جاری ہے جبکہ دنیا فائیو جی اور اور پتہ نہیں کہاں کہاں پہنچنے کیلئے پر تول رہی ہے۔
پاکستان قدرت کی جانب سے عطاء کردہ دنیا کے مسلمانوں کیلئے عظیم نعمت ہے۔یہ اور بات ہے کہ پاکستانی بھی دوسرے انسانوں کی طرح بلکہ مسلمانوں کی طرح نعمتوں کی ناقدری کرنے والے واقع ہوئے ہیں اور یہ اس ناقدری کا ہی نتیجہ ہے کہ قدرتی معدنیات سے مالا مال ملک آج قرضوں کے بوجھ تلے اتنی بری طرح سے دبا ہواہے کہ کسی کے سامنے اپنے کشمیری بھائیوں کے حق کیلئے بھی آواز نہیں اٹھا سکتا۔ پاکستان کشمیر کے معاملے پر گزشتہ پچاس یا شائد اس سے بھی زیادہ سالوں سے چیخ رہا ہے لیکن سنوائی نہیں ہوکر دے رہی۔ اقوام متحدہ کا ادارہ بھی مسلمانوں کے مسائل سے آنکھیں چراتی دیکھائی دیا ہے۔ موجودہ بھارتی دراندازی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بھارتی سوچ بچار کرنے والوں نے یہ فیصلہ کیا ہوگا کہ اب پاکستان کہ بس کی بات نہیں کہ وہ کشمیر پر کوئی بڑا فیصلہ کرسکے اس لئے ہم (بھارتی) کشمیر کیلئے حتمی فیصلہ کرلیتے ہیں، اور انہوں نے حتمی فیصلہ کرہی نہیں لیا بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنا دیا ہے۔
خواب غفلت میں اوندھے منہ پڑے ہوئے مسلم ممالک کو اٹھانے کیلئے ہم تو انہیں جھنجھوڑ کر اٹھانے کی حیثیت میں بھی نہیں ہیں۔ کیا عرب ہمارے پیارے خاتمین النبین ﷺ کے آخری خطبے میں کہی جانے والی بات بھول گئے ہیں کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں سوائے تقوی کے۔ یوں تو عرب بہت کچھ بھول چکے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا مندر بنایا جا رہا ہے، مسلمانوں کے نامی گرامی قاتل کو اعلی سول (شہری) اعزاز سے باوقار طریقے سے نوازا جا رہا ہے۔ آخر یہ سب کیا ہے؟ کیا ان مسلمانوں کی نظر میں اپنے مظلوم بھائیوں کا خون انکی دنیاوی تجارت کے آگے کچھ بھی نہیں ہے؟ اسکا فیصلہ وقت بہت جلدی کروائے گا۔
معلوم نہیں کیوں محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہماری نیتوں میں ہمیشہ کوئی کھوٹ رہا ہے یا پھر کوئی اور وجہ رہی ہوگی کہ مسلمان آج تک اپنے مسائل ناتو حل کر سکے ہیں اور نا ہی کروا سکے ہیں۔ بلکہ ایک دوسرے پر فوجی کاروائی یا دیگر بندشوں کیلئے دشمن کے آلہ کار بنتے رہے ہیں۔کیا دنیا بھارتی اور اسرائیلی مظالم پر ہمیشہ چشم پوشی نہیں کرتی رہی ہے،کیوں یہ تلخ حقائق دنیا کی آنکھوں سے اوجھل رہے ہیں مسلۂ صرف کشمیر کا نہیں ہے آپ فلسطین کو اٹھا کر دیکھ لیجئے دنیا کے مسلمانوں میں کیا اتنی مذہبی غیرت بھی نہیں ہے کہ وہ فلسطین کا معاملہ حل کروا سکیں۔ ہم بھلے ہی سفارتی جنگ جیت چکے ہوں لیکن بھارت کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا اور نا ہی پڑتا دیکھائی دے رہا ہے۔وقت تکازہ کر رہا ہے کہ حتمی فیصلہ کیا جائے جوکہ بھارت نے کر لیا ہے اب یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے ورنہ اس فقیر کی طرح بیٹھے بس دعائیں ہی کرتے رہ جائینگے، سماجی میڈیا پر رونا روتے رہینگے اور آتے جاتے لوگ ہماری روداد سن کر کچھ بھیک دے کر آگے بڑھ جائینگے۔ اب افغانستان، ایران اور کشمیر کے امور پر پاکستان کو حتمی فیصلہ کرنا ہے لیکن یہ جو مسائل کا امبار صدیوں سے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اب انکو حل کرنے کی ضرورت ہے اور اسکے لئے سب سے بڑی ضرورت امت کا ایک ہونا ہے۔اب وقت قریب آچکا ہے یہ دنیا کی سجی ہوئی حسین سیج دنیا والوں نے کانٹوں سے بدلنے کی ٹھان لی ہے، مسلم ممالک اپنے مرکز پر لوٹ آئیں خدارا حشر بپا ہونے سے پہلے یہ ایک ہونے کا حتمی فیصلہ کرلیں ورنہ کیا میدان حشر میں اپنے پیارے نبی ﷺ کا سامنا کیسے کرینگے اللہ رب العزت کو کیا منہ دیکھائینگے کہ ہمارے بھائی مرتے رہے ہماری عورتوں کی عزتوں کو پامال کیا جاتا رہا اور ہم ان مظالم کو ڈھانے والو ں کو کالے کارنامے سرانجام دینے والوں کو انعام و اکرام سے نوازتے رہے۔ حتمی فیصلہ کرنے کا وقت صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ پوری امت کیلئے۔