مسئلہ کشمیر اور عربوں کی خیانت! (انشال راؤ)

مسلمانوں کے آپس میں ایک دوسرے پر حقوق واجب ہیں ان میں کمی، کوتاہی، ادائیگی امانت میں خیانت اور بددیانتی ہی ہے چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا “اے ایمان والو! اللہ اور رسولؐ سے خیانت مت کرو اور آپس کی امانتوں میں دانستہ خیانت مت کرو (انفال) اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات و طریقوں پہ عمل نہ کرنا، دین و امت مسلمہ سے غداری کرنا، اللہ اور اسکے رسولؐ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی و مراسم بڑھانا، مسلمانوں کے مقابلے میں مسلمان دشمن یا اسلام دشمن قوتوں کا ساتھ دینا خیانت و بددیانتی کے زمرے میں آتے ہیں۔

رواں ماہ اگست کے اوائل میں بھارتی ظلم و بربریت کی چکی میں پسے ہوے کشمیری بھائیوں کی طرف سے S.O.S کال بنام امت مسلمہ دی گئی، انہیں شاید بہت امید تھی کہ عربوں کے خون میں آج بھی غیرت و حمیت ہے جو وہ حجاج بن یوسف کی طرح محمد بن قاسم کو اپنی مسلمان بہنوں کی عزت و آبرو بچانے کے لیے بھیج دینگے، انہیں شاید افغان سے بھی بڑی امیدیں تھیں کہ وہ احمد شاہ ابدالی کی طرح مسلمانوں پہ ظلم و جبر ڈھانے والے مرہٹوں کی خبرگیری لینے آپہنچیں گے، انہیں شاید آج بھی قبائلی بھائیوں پہ فخر ہے جو ابتک آس لگائے بیٹھے ہیں کہ 1947 کی طرح قبائلی پشتون آنکلیں گے کہ جب 1947 میں ڈوگرا سپاہ اور RSS کے غنڈوں نے جموں میں بسنے والے نہتے کشمیریوں کو کاٹنا شروع کردیا، یہ قتل عام تین ہفتے جاری رہا جس میں تقریباً ڈھائی لاکھ کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور تقریباً سات لاکھ کشمیریوں کو اپنی جان بچاکر پاکستان آنا پڑا نتیجتاً جموں جو کبھی مسلم اکثریتی علاقہ تھا صرف تین ہفتوں بعد مسلمان وہاں آٹے میں نمک کے برابر رہ گئے، تب قبائلی بھائیوں اور پاک فوج نے پہنچ کر نہتے کشمیریوں کی مدد کی، ایک بار پھر وہی مسلم نسل کشی جموں 1947 کی طرز پر مودی کی ہندوتوا کریسی نے ایک پلان مرتب کیا تو کشمیری بزرگ نے امت مسلمہ کو S.O.S کال کے زریعے پکارا مگر افسوس صد افسوس ان عرب حکمرانوں پر جنہوں نے ایکبار پھر امت مسلمہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپا، یہی وہ عرب تھے جن کے بزرگوں کی وجہ سے اسلام نے ترقی پائی جن کی قربانیوں سے اسلام دنیا میں پھیلا، جانے کہاں گئے وہ لوگ وہ جذبہ، ایک صدی پہلے موجودہ حاکمین عرب کے باپ دادا نے ہی اسلام کی قوت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کے ساتھ دھوکہ کرکے انگریز کا ساتھ دینے والے یہی لوگ تھے، شریف حسین جس نے عرب میں انگریز جاسوس لارنس آف عربیا کے نام سے مشہور ٹی وی لارنس کو اپنا بیٹا بتاکر مشہور کر رکھا تھا اور عرب نیشنلزم کے زریعے ترکوں کے خلاف تعصب کو ہوا دی، انگریز و دیگر اتحادیوں کا ساتھ دیا نتیجتاً اسلامی خلافت ختم ہوگئی اور اسلام کے کمزور ہونے کا فائدہ اٹھاکر انگریز نے فلسطین میں ناجائز ریاست اسرائیل کو قائم کردیا، ایک بار پھر انہی کی نسلوں نے کشمیر کے مسئلے پر مسلمان و اسلام دشمن ہندوتوا دہشتگردوں کا ساتھ دیا، بحرین کہتا ہے کہ اس کے بزنس انٹریسٹ ہیں۔

سعودی عربیہ نے تو تمام احسانات کو فراموش کرکے نہ صرف اسے بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دیا بلکہ بھاری سرمایہ کاری بھی کردی مسلمان بہنوں کی عصمتوں کے تحفظ کا وقت آیا تو محمد بن سلمان صاحب لنڈسے لوہن کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے رہے، اس کے علاوہ عرب امارات تو خیانت و بددیانتی میں سب سے کو پیچھے چھوڑ گیا، نہ صرف مسئلہ کشمیر کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دیا بلکہ اسلام دشمن و ہزاروں مسلمانوں کے قاتل مودی کو اعلیٰ ایوارڈ سے نوازا، اس ایوارڈ کی کیا وجہ ہوسکتی ہے شاید یہ کہ مودی کی تحقیق سے ان عیاش حکمرانوں کو فائدہ پہنچا ہو، مودی نے ایکبار بونگی ماری تھی کہ گنیش دیوتا کے وقت میں کاسمیٹکس سرجری ہندوستان میں صدیوں پہلے موجود تھی اس کے علاوہ چائے فروش نے رامائن اور مہابھارت کی داستانوں سے ہندوستان کو اسپیس ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور میزائل ٹیکنالوجی کا موجد قرار دیا تھا مزید یکہ بالاکوٹ سرجیکل اسٹرائیک کے لیے بادل و بارش کے موسم سے فائدہ اٹھانے کا حکم دیا تھا کہ بادلوں کے ہوتے ہوے بھارتی طیارے پاکستانی راڈار پر نہیں آئینگے، اب جبکہ ان عرب ممالک کا ایران سے چھتیس کا آکڑا ہے تو شاید ان عرب حکمرانوں کو کوئی حیرانکن مشورہ بھاگیا ہو جو کوئی ایوارڈ دیتا پھر رہا ہے تو کوئی مودی کی ایجادات سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے، آج کشمیر میں کرفیو، انٹرنیٹ و میڈیا بلیک آوٹ کو چوبیس روز گزرگئے جیسا کہ ہندوتوا دہشتگردوں کا ماضی کا کردار ہے حیدرآباد دکن میں صرف دو روز میں چالیس ہزار مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔

جموں میں تین ہفتوں میں ڈھائی لاکھ مسلمان شہید کئے گئے، اس کے علاوہ گجرات، احمدآباد، جمشیدپور و دیگر بہت سے سانحات میں لاکھوں مسلمان ان ظالموں کی بھینٹ چڑھ چکے اور مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تو آئے روز کئی واقعات سامنے آرہے ہیں ایسے میں شدید خوف آتا ہے، خدشات و وساوس آتے ہیں، کشمیری بھائیوں کی جان و مال کا خطرہ آتا ہے، ہندوتوا دہشتگردوں کے ماضی اور موجودہ بیانات و اعلانات سے بہنوں کی عصمتوں کا خیال آتا ہے اور G-7 سمت کے موقع پر عالمی طاقتوں کے روئیے نے ثابت کردیا ہے کہ ان کی نظر میں کشمیری مسلمانوں کی جان و مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں البتہ ترکی کی طرف سے اس ضمن میں مثبت سوچ و فکر سامنے آئی ہے اس صورتحال کے پیش نظر اب پاکستان کے پاس دو ہی آپشن ہیں یا تو کشمیر کا فیصلہ میدان میں کیا جائے یا پھر عالمی طاقتوں کو مجبور کرنے کے لیے ترک خلافت کی بحالی کا اعلان کردے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں